بھارت و بنگلہ دیش کے مابین کشیدہ حالات تجارتی شعبہ میں بھی وسوسے اور چھوٹے موٹے سست رفتاری کا شکار ہورہا ہے یا یہ کہیے کہ تجارت ہی اِس کشیدگی کا سب سے بڑا ہدف ہے، مغربی بنگال کے تاجر جن کا بنگلہ دیش سے تجارتی تعلقات کا ایک مربوط رشتہ ہے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر بنگلہ دیش اُن سے تجارتی تعلقات کو منقطع کرلیتا ہے تو پھر اُن کا کیا بنے گا؟ اِس کے برمخالف بنگلہ دیش کے تاجر اِس خوف و ہراس میں مبتلا ہیں کہ اگر بھارت نے بنگلہ دیش کو غذائی اجناس اور صنعتی اشیا سپلائی کرنا بند کردیا تو وہ کس طرح اِس بحران سے نبرد آزما ہوں گے؟ تیسرے اور چوتھے ملک سے تجارتی رشتہ جوڑ لینے کا کہنا تو ایک آسان بات ہے لیکن صارفین اور صنعت کاروں پر اِس کے کیا اثرات پڑینگے یہ ایک ناقابل تصور مسائل کا جڑ ہے ، مثلا” فی الفور انڈا بنگلہ دیش میں بھارت سے درآمد کیا جاتا جس کی وجہ کر فی انڈے کی قیمت بنگلہ دیش کے صارفین کو چھ ٹکا سے آٹھ ٹکا دینی پڑتی ہے لیکن اگر یہ انڈے بھارت سے آنا بند ہو گئے تو بنگلہ دیش کو اِسے تھائی لینڈ سے درآمد کرنا پڑے گا اور بنگلہ دیشی صارفین کو ایک انڈے کی قیمت پچاس ٹکا ادا کرنا پڑے گی،بنگلہ دیش نے گزشتہ سال بھارت سے گیارہ بلین ڈالر کی اشیا ضروریہ خریدی تھیں جن میں چاول ، دال ، پیاز، آلو، سرخ مرچ اور فصلوں کی بیج شامل ہیں جبکہ دو بلین ڈالر جن میں گارمنٹس سر فہرست ہیں بھارت کو ایکسپورٹ کیا تھا،گیارہ بلین ڈالر میں سے صرف ایک بلین ڈالر کی الیکٹرسٹی بھارت سے خریدی گئی تھی جس کی ادائیگی تا ہنوز تاویلوں کا شکار ہیں، بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ انبانی انڈسٹری نے الیکٹرک کی قیمت اُن سے زیادہ نرخ پر لیاتھاجبکہ اُسی الیکٹرک کی قیمت بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بنگلہ دیش کو کم قیمت پر فروخت کیا تھا،بنگلہ دیش کی واحد گارمنٹس انڈسٹری بھارت سے درآمد کئے ہوے کاٹن اور دھاگے کی مرہون منت ہے جبکہ تین بلین ڈالر کا یہ خام مال بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے،بھارت و بنگلہ دیش کے مابین سیاسی تناؤ اور ڈھاکا میں اقتدار اعلیٰ کی تبدیلیاں اِن دنوں برصغیر ہندو پاک کے عوام کیلئے گفتگو کا ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے تاہم اِن حالات نے بنگلہ دیش کی تجارتی گہما گہمی کو بہت زیادہ متاثر نہیں کیا ہے ، اور بھارت سے بنگلہ دیش کیلئے درآمد ہونے والی قیمتی اشیاجن میں کاٹن، یارن، الیکٹرک سٹی اور ایندھن کی روانی اُسی رفتار سے جاری ہیں جیسے کے وہ پہلے تھیں، حقیقت میں 1971 ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کے بعد اُس کی تجارت پڑوسی ملکوں سے بیش بہا اضافہ ہوا ہے تاہم ہندوؤں پر حملے اور مظالم کی افواہوں نے بنگلہ دیش کے پڑوسی ریاستوں سے تجارتی تعلقات کو کسی حد تک متاثر کیا ہے، بھارت اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی ہیں جو بین الاقوامی میڈیا کی زینت بھی بنیں ہیں لیکن تجارت میں رخنہ اندازی کی خبروں کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئیں ہیں،بنگلہ دیش کے پرائیویٹ سیکٹر ریسرچ کے چیئرمین عبدالرزاق نے یہ اعتراف کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی بھارت سے قریبی سرحد اور اُس کی اشیا کی کم قیمتوں کی وجہ سے اول الذکر ملک مستفید ہوتاہے، انہوں نے کہا کہ ” جب بھی کسی اشیا کی بنگلہ دیش میں قلت ہوئی اور وہ اُس وجہ کر مہنگی ہوگئی تو اُسے فورا”بھارت سے درآمد کر لیا گیا، بجائے اِس کے پیاز مصر سے درآمد کیا جاتا جس کی قیمت دوری اور زیادہ وقت لینے کی وجہ کر موثر بہ لاگت نہیں ہو سکتی، بنگلہ دیش میں24 کے قریب لینڈ پورٹس ہیں جس میں زیادہ تر آمد و رفت لال منی ہاٹ ، جیسور ، بوری ماری اور بینا پول سے ہوتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ یہ پورٹس بھی ہنگاموں کی زد میں آرہے ہیں، ساجد الرحمن جو بینا پول سے سامان منگواتے ہیں نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی علاقہ پیٹراپول میں چِن موائے کرشنا داس کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ہندوؤں کے احتجاج سے وہ پورٹ بھی آدھا قابل استعمال اور آدھا مفلوج ہوچکا ہے، تصورات کی پرچھائیاں اُبھرتی ہیں ، صد فیصد یقین کی طرح بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے سے شہر بھیرب بازار کی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہوگی، لیکن جہاں 1965 ء تک کوئی گاڑی تو کیا کسی موٹر سائیکل کا نام ونشان تک بھی نہ تھا، میں اُسی چھوٹے شہر کا ایک باسی تھا جو وہاں کی بنگالی زبان اور اُس کی تہذیب و ثقافت میں ضم ہوچکا تھا، بھیرب بازار میں لینے والی ہر انگڑائی اور سانس میرے دیدہ وری کی مرہون منت تھی، کیونکہ میرے والدین نے اُسی پاکستان کیلئے بھارت سے ہجرت کی تھی، صبح سویرے میرے گھر کے سامنے جو ایک چھوٹی سی گلی تھی وہاں سے بنگالیوں کی قطار در قطار لُنگی اور بنیائین پہنے ، ننگے پیر گزرتی تھی، وہ روزانہ کی دہاڑی کمانے کیلئے جو دو سے دس روپے تک کی ہوتی تھی تگ و دو کرتے تھے، اُس رقم سے اُن کے گھر میں ایک وقت کا کھانا جو اُبلے ہوئے چاول اور نمک کے ایک چمچے پر مشتمل ہوتا تھا، اُس کی ضرورت پوری ہوتی تھی جب میں غلیل لئے اُن کے آنگن سے گزرتا تو بغور اُن کے دسترخوان کو دیکھتا تھا تاہم ملک میں ترقی کا عہد وزیراعظم خالدہ ضیا کی مدت جو1991 ء سے 1996ئ پر محیط تھا شروع ہوا، بنگلہ دیش میں گارمنٹ انڈسٹری پھوٹنا شروع ہوئی ، افلاس زدہ بنگالی نمک کے بجائے سوپ کے ساتھ چاول کھانے لگے لیکن اُس کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ بھی ملک کے ریزرو فنڈز کو نگلنا شروع کردیا ، آج ماہرین معاشیات یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا بنگلہ دیش میں ترقی کی رفتار اتنی ہی تیز ہوتی اگر وہ پاکستان کے ساتھ ہوتا؟