جبر کی بستی میں بھی رائے کی آزادی ملے !!!

0
6

حضرتِ انسان کے بنیادی حقوق میں جس حق پر کافی زیادہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے وہ آزادیِ رائے کا حق ہے۔ اس اختلاف کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستِ ہائے متحدہ امریکہ نے بادشاہت سے نجات حاصل کرکے جب اپنا آئین بنایا تو اس کے بل آف رائیٹس میں بھی آزادیِ رائے کا حق شامل نہ ہو سکا۔ اسی آئین میں بعد ازاں فرسٹ امینڈمنٹ کر کے فری اسپیچ کے حقوق شامل کئے گئے۔ تقریبا اڑتیس سال پہلے جب ہم نے پاکستان سے امریکہ کی جانب ہجرت کی تو بظاہر یہ ملٹری کی ڈکٹیٹر شپ سے دنیا کی سب سے بہترین جمہوریت کی جانب ایک سفر تھا لیکن عملی طور پر، کچھ عرصے بعد ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ عام شہریوں کیلئے انفارمیشن پر جو کنٹرول امریکہ کی سپر پاور کو حاصل ہے، پاکستان جیسے ممالک میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عام امریکی تو بیچارہ لوکل نیوز، اسپورٹس اور موسم کے حال کے علاوہ دنیا کے ہر حال احوال سے محروم ہے۔ پاکستان کے شہری تو شارٹ ویو ریڈیو کے ذریعے مختلف الرائے رکھنے والے افراد کے تجزیے اور تبصروں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ یہاں امریکہ میں تو اس زمانے میں تینوں نیوز نیٹورک صرف آدھے گھنٹے کے خبروں کے بلیٹن نشر کرکے، انتہائی کنٹرول انداز سے صرف وہی معلومات فراہم کرتے تھے جو انہیں عام آدمی کیلئے مناسب محسوس ہوتی تھیں۔ دنیا کے شاٹ ویو ریڈیو کی امریکہ کے ساحلوں تک رسائی ہی نہیں تھی۔ بس آپ ایف ایم ریڈیو پر سارا دن میوزک سے محظوظ ہوتے رہیں۔یہ تو بھلا ہو کیبل نیوز اور پھر انٹرنیٹ کا کہ امریکی عوام کو بھی مختلف نقطہ نظر رکھنے والے مبصرین سے کسی حد تک استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ اس اکیسویں صدی میں بھی پچھلے دنوں، امریکی میڈیا کے کئی اینکرز کو ملازمتوں سے اس وقت محروم ہونا پڑا جب انہوں نے غزہ میں ہونے والے مظالم کے بارے میں شہریوں تک صحیح معلومات پہنچانے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی جامعات میں طلبا کی آزادیِ رائے پر بھی اس قدر سخت قدغن لگائی گئی کہ ہزاروں طلبا کی گرفتاریاں کی گئیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں طلبا زخمی بھی ہوئے۔ سیکورٹی فورسز کے جبر اور ظلم کو لاکھوں لوگ مسلسل سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔ نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں نے انسانوں کے سب سے اہم بنیادی حق، آزادیِ رائے کو پامال کرکے رکھ دیا ہے لیکن دعوی یہی ہے کہ ہم تو آزادیِ رائے کے سب سے بڑے چمپئین ہیں۔رائے کے آزادی کا ایک اور پہلو وہ ہے جس کے ذریعے مذہبی شعائر کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ الہامی تعلیمات اور مہذب معاشروں نے ہمیشہ آزادیِ رائے کی کچھ حدود و قیود کا تعین بھی کیا ہے۔ چند سال پہلے، پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اسلامی شعائر کی بے حرمتی کے خلاف ایک مضبوط آواز اٹھائی تو پہلے تو فری اسپیچ کے ٹھیکے داروں نے اس پر کافی برا منایا لیکن بالآخر اقوامِ متحدہ کو بھی اسلامو فوبیا کے خلاف ایک قراداد منظور کرنی پڑی۔ قرآنِ مجید کی سور الحجرات میں بھی دوسروں کی تضحیک کے حوالے سے فری اسپیچ پر واضح پابندیاں موجود ہیں۔اصل آزادیِ رائے تو جائرسلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے اور اسی حق سے جب عوام کو محروم کیا جاتا ہے تو معاملات خراب ہوتے ہیں۔ اختلافِ رائے کا احترام صحت مند معاشرے کیلئے ضروری ہے ورنہ بڑی بڑی تہذیبیں بھی زوال کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ پندرہ سو سال پہلے، ریاستِ مدینہ میں ایک مثالی اور متوازن نظام قائم کیا گیا تھا جس میں ہر ایک کی آزادیِ رائے کے ساتھ ساتھ عزتِ و احترام کی حفاظت بھی موجود تھی اور احتساب کا نظم بھی مثر انداز سے کام کرتا تھا۔ افسوس کے ہم نے وہ نظام بہت جلد ترک کر دیا اور ترقیِ معکوس کا شکار ہوگئے۔
ہدایت اللہ صاحب کے ان اشعار کے کیا کہنے:
راستہ تعمیر ملت کا نکل آئے گا کچھ
وا ہو دروازہ گر استفہام کا تنقید کا
جبر کی بستی میں بھی رائے کی آزادی ملے
سب کو استحقاق ہو تائید کا تردید کا
ہو گئی فرسودہ واعظ آپ کی یہ داستاں
آ گیا ہے وقت اب افکار کی تجدید کا
گفتگو کے فن سے ہیں نا آشنا کیوں لوگ سب
ہر کوئی مشتاق اپنی سوچ کی تائید کا
سوچ پر پہرے ہدایت ہوں تو کیا ہو ارتقا
مجتہد بھی بن گیا ہے خوشہ چیں تقلید کا
کسی بھی ملک کی مقتدرہ کیلئے، سب سے مشکل کام، عام آدمی کو آزادیِ رائے کا حق دینا ہوتا ہے۔ امریکہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتا ہے۔ دوسرے جمہوری ممالک میں تو کئی کئی سیاسی پارٹیوں کو پنپنے کا موقع مل جاتا ہے۔ امریکہ جیسی جمہوریت میں صرف دو پارٹیوں کی ہی گنجائش رکھی گئی ہے۔ کسی بھی تیسری پارٹی کو جانے والے ووٹوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی۔ مقتدرہ اگر کسی گروپ کو ٹیررسٹ قرار دے دے تو میڈیا، سیاسی رہنما، علمی ادبی حلقے حتی کہ جامعات کے پروفیسرز بھی اس گروپ کو ٹیررسٹ کہتے کہتے نہیں تھکیں گے۔ کچھ عرصے بعد ہو سکتا ہے وہی ٹیررسٹ گروپس، آپکو فریڈم فائیٹرز کی کیٹیگری میں کھڑے نظر آئیں اور حضرتِ غالب کی طرح، آپ بھی یہ کہنے پہ مجبور ہو جائیں کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here