امریکی سیاست، اسرائیل لامحدود اور کرکٹ !!!

0
6
کامل احمر

ہم لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں اور ہماری طرح دوسرے بھی ناقابل برداشت سیاست پر ڈاکوئوں کے قبضے سے خائف ہیں کچھ کر نہیں سکتے اگر پاکستان کے حالات سدھارنے اور اسے مثالی ملک بنانے کا فیصلہ کرلے تو امریکہ بہت آسانی سے ایسا کرسکتا ہے1972سے2024تک آتے آتے امریکہ دنیا میں امن پھیلانے میں معذور رہا ہے اوراب اسرائیل کے گھیرائو میں ہے۔ڈالرز بھی وصول کرتا ہے اور کسی کو بولنے نہیں دیتا۔ نتن یاہو اسرائیل کے انسانی حقوق کی آدھی صدی سے زیادہ خلاف ورزی پر یہ ہی کہتا رہا ہے کہ ہمیں اتنا دفاع کرنا ہے لیکن اس کی آڑ میں وہ فلسطینیوں کا خون پی پی کر دھینگامشتی کر رہا ہے۔ کوئی اسے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بائیڈین صدر امریکہ سر جھکائے کھڑا ہے۔ اور پوری کابینہ ایک اعلیٰ درجہ کی غلامی میں ہے کہ اسرائیل کے خلاف نہیں بولنا۔ ہمارا ایسا کہنا ہے کہ بلاوجہ بغیر ثبوت اور بغیر تاریخ کے کسی حکمران کو برا نہ کہو۔ لیکن ظالموں اور عوام کے حقوق لوٹنے والوں کی صف میں یہ ممالک ہیں۔ پاکستان، ہندوستان، مصر اور سب سے بڑھ کر اسرائیل اور اس ملک کو بار بار اپنی گرفت میں لے کر من مانی کرنے والا ایک شیطان صفت انسان نتن یاہو جیسے امریکی سیاست دانوں اور ان سے جڑے لابسٹ کی بھرپور سرٹ ہے۔ICCنے ہر چند نتن یاہو کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ لیکن وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوئے ہیں۔ دوسرا بڑا مسخرہ یوکرین کا صدر ہے جو امریکی کانگریس کے اجلاس میں آکر سیاست دانوں کو بھاشن دیتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کیا امریکہ اتنا گر چکا ہے پہلے اسرائیل کو امریکہ کی ریاست کہتے تھے اور اب پچھلے20سالوں میں عراق، لیبیا، مصر شام اور اب فلسطین پر قبضہ کرنے کے بعد یہ ہی کہنا پڑتا ہے۔ یونائیٹڈ اسٹیس آف اسرائیل، صدر بائیڈین نےAIPECکے کہنے پر اپنی کابینہ بنائی ہے۔ جو اسرائیل کو آنکھ نہ دکھا سکے اس لئے کہ برا کام کرنے والے کو معلوم ہوتا ہے اس کے مخالف پیدا ہونگے۔ اور بڑی ہوشیاری سے اسرائیل نے دانشوروں، سیاست دانوں کی پیداوار پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ پوری تاریخ پڑھ جائیں ، کہیں بھی ایسا نہیں ملے گا کہ امریکہ نے کسی ملک ہماری مراد تھرڈ ورلڈ ممالک سے ہے کی عوام کی بہبودی کے لئے کوئی کام کیا۔ ہر ملک کی ترقی اور دوسرے چھوٹے ممالک کی گٹھ جوڑ سے کبھی کوئی کام نہیں ہونے دیا۔ سازشیں سازشیں اور سازشیں ان کی ایک گھنائونی داستان ہے۔ ذرا غور کریں امریکہ اپنے عوام کو صحت و علاج کی سہولتیں نہیں پہنچا سکتا۔ ہیلتھ انشورنس ایک گھنائونا باب ہے جس پر سینیٹر برنی سینڈرز کہہ کہہ کر تھک گیا اس پر فیڈرل حکومت کے کان پر جوں تک نہ رہینگی ڈاکٹروں کے نسخے(PRESCRIPTION)کے تحت دوائوں کی قیمتیں سونے کے برابر اور جو کائونٹر پر رکھی نزلے زکام کھانسی یا درد کی گولیاں چاندی کے بھائو۔ آنکھوں کی پتلی کے پیچھے ضرورت سے زیادہ پانی نکلنے کی روک تھام کی کو دوا نسخہ کے تحت نہیں تو فارمیسی کمپنیوں نے مال بنانے کا یہ حل نکالا کہ اسے کائونٹر پر رکھ کر بیچا جائے ایسی ایک دوا کی210گولیوں کی قیمت39ڈالر جو آپ بڑے ہول سیلرCOSCOسے لے سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس انشورنس ہے بھی تو اس کی قیمت کے تناسب سے جیب سے بھی دینا پڑتا ہے۔ اور مذاق یہ بھی کہ کسی کے پاس مکمل ہیلتھ انشورنس نہیں۔ دانتوں کا انشورنس الگ سے لینا پڑتا ہے آپ اپنی آنکھیں کسی ماہر چشم کو دکھائیں تو اس میں آنکھوں کے چشمے کا نسخہ شامل نہیں انشورنس ڈاکٹر کو12سو ڈالر ایک وزٹ کے دے دے گی لیکن50ڈالر چشمہ کے نمبر کے آپ کو دینا ہیں۔ اور پھر چشمہ بنوانے کی قیمت اگرBIFOCALہے۔ تو بغیر لائن کے3یا چار سو ڈالر چشمہ ساز کو دینا پڑیگی۔ یہ بات یوں ہے کہ یہ سب کاروبار یہودیوں کے ہیں اور ہر کسی کو مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔ آپ پوچھینگے قانون نہیں ہے وہاں جی بالکل نہیں یہ سب بزنس ہے۔ تعلیم(اعلیٰ) ایک بڑا بزنس ہے۔ فیس50ہزار ڈالر سے60ہزار ڈالرز ہے۔ سال کی اور گھبرانے کی بات نہیں بنک کے دروازے کھلے ہیں۔قرض دینے کے لئے، تو پیشہ ور ڈگری کے حصول کے لئے یہاں کا ہر طالبعلم3سو سے چار سو ہزار ڈالر کا مقروض ہوتا ہے۔ ڈگری ملنے کے بعد کچھ سیانی مائیں اپنے بیٹوں کی شادی سے پہلے یہ بھی پوچھ لیتی ہیں۔”بہن ایک اہم بات پوچھنی ہے آپ کی بیٹی جو ڈاکٹر، یا فارماسٹ یا نرس بنی ہے اس پر بنک کا قرض تو نہیں۔
ہمارے کچھ دوست یہ پڑھ کر یقین نہیں کرینگے۔ اگر وہ میڈی کیڈ پر ہیں یہ ریاست کے تحت فیڈرل حکومت کی طرف سے علاج اور دوائوں کی سہولت کی انشورنس ہے اور جس کے پاس یہ ہے اسے جیب سے کچھ نہیں دینا پڑتا دل کی تبدیلی کا آپریشن بھی اسکے تحت ہو جاتا ہے۔ یہ سہولتیں ہر ریاست میں ایک جیسی نہیں۔ صرف نیویارک اس معاملے میں بہت سخی ہے بلکہ گھر گھر فون کرکے معلوم کرتے ہیں آپ کوMEDICAIDدلوا سکتے ہیں۔ اور اس کا فائدہ تھرڈ ورلڈ کنٹری سے آئے لوگوں نے اٹھایا ہے۔ لیکن وہ شخص جس نے یہاں تمام عمر ٹیکس دیا ہو اور بنک میں کچھ جمع پونچی ہو اور سوشل سکیورٹی سے ماہانہ چیک آتا ہو وہ اُسے چھپا نہیں سکتا لہذا90فیصدی وہ اس سہولت کا اہل نہیں ہوسکتا۔
یہ ایک بنیادی سہولت ہے جو ہر ملک میں ہر شہری کو دی جاتی ہے ہمیں براڈولے اور ڈیلنسی اسٹریٹ کے کونے پر ایک بڑی عمارت کی دیوار پر1972میں یہ لکھا ملا تھا۔”امریکہ واحد صنعتی ملک ہے جہاں علاج معالجہ کی سہولتیں نہیں دی جاتی ہیں یہ پڑھ کر جب سے اب تک ہم بھولے نہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اور نہ امید ہے لہذا عوام مجبور ہیں غلط طریقہ سے یہ سہولتیں لینے کے لئے یہ ایک تفصیل ہے۔ ہیلتھ کیر کی سہولتیں فراہم کرنے والے ایجنٹ آپ کو بتا سکتے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں چین اور روس چھوٹے پسماندہ ممالک ہیں ٹرانسپورٹ، ایگری کلچر، ایکسپورٹ، امپورٹ کی سہولتیں فراہم کرکے اپنا بھی فائدہ لے رہا ہے۔ اور ایک امریکہ ہے جہاں کا ہر شہری اوسطاً25ہزار ڈالر کا مقروض ہے ایک اسکیم کے تحت امریکہ میں شاطروں نے کھیلوں اور شوبزنس میں اونچی اڑان بھری ہے۔ یہاں کے دو مقبول اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والے گیم ہیں۔ بیس بال اور فٹ بال تیسرے نمبر پر باسکٹ بال ہے۔ اور پورے سال یہ گیم باری باری امریکیوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں امریکہ میں کسی چوتھے گیم کے لئے جگہ نہیں اور یہ تینوں اسپورٹس چوتھے کو آنے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔
امریکہ کی کئی ریاستوں میں جہاں پاکستانی ہندوستانی اور ویسٹ انڈین کے علاوہ بنگلہ دیشی اور سری لنکن میں کرکٹ کو آگے بڑھنے کا موقعہ ملا ہے نیویارک میں چونکہ یہ ساری قومیں ہیں تو یہاں کرکٹ کو تھوڑی بہت شہرت مل رہی ہے۔ پچھلے سال ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے کچھ لوگوں نے مل کر کرکٹ کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تھا۔ اس سال ناسا کائونٹی کے افسر اعلیٰ بلیک مین کو کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ مقبولیت چاہتے ہو تو کرکٹ، کا اسٹیڈیم بنائو اور ہم انٹرنیشنل میچ کرائینگے35ہزار کی نشستوں والا یہ اسٹیڈیم چند ماہ میں بن کر تیار ہے لیکنDISPO SIBLEہے۔ کھیل کے بعد اسے ختم کردیا جائے گا۔ پیسے بنانے کا یہ اچھا موقعہ ہے اور ان تمام ممالک کے بچوں کے لئے جہاں کرکٹ دیکھی اور کھیلی جاتی ہے اچھے کھیل کا آغاز ہے لیکن اس میں اگر وہ عناصر شامل ہیں۔ جو پاکستان کی کرکٹ کو اپنے گھر کی لونڈی بنائے ہوئے ہیں تو اس میں عام شہری کی کوئی دلچسپی نہ ہوگی۔ اور یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ امریکہ میں کرکٹ کا بول بالا ہوگا۔ پرائیویٹ طور پر جیسا کہ تین بڑے اسپورٹس ہم اسے گیم کہیں گے کا ہے۔ سنا ہے ہم لوگوں نے ٹکٹ کی بلیک شروع کردی ہے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here