ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں اچانک موت نے ایران سمیت خطے کی فضا کو ناصرف سوگوار کردیا ہے بلکہ اس افسوسناک سانحے نے سوالات کے ناختم ہونے والے سلسلے کو بھی جنم دیا ہے۔ چہ میگوئیوں اور افواہوں کے بیچ سازشی تھیوریوں اور الزامات کا بازار بھی گرم ہے۔ سن دوہزار بیس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد یہ پہلا غیر معمولی واقعہ ہے جس میں ایران کے چوٹی کی شخصیات جان سے گئی ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے قریب حتی کہ ان کہ ممکنہ جانشیں تصور کئے جانے والے ابراہیم رئیسء اور ایران کے ٹاپ ڈپلومیٹ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبدالنہئان کی موت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے جو اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی ہیں سوال یہ ہے کہ کیا یہ حادثہ ہے یا سوچی سمجھی سازش اور اگر سازش ہے تو اس گھناونی سازش کے پیچھے کون ہے سوال تو یہ بھی ہے کہ ایرانی صدر کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر پینتالیس سال پرانہ اور پرانی ٹیکنالوجی کا حامل کیوں تھا اور اس کے سپئیر پارٹس تک خریدنے کی اجازت کس نے نہ دی سوال یہ ہے کہ اس حادثے کے بعد عالمی طاقتیں اس پر کس ردعمل کا اظہارکررہی ہیں۔ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے سے پہلے اس حادثے سے متعلق سامنے آنے والی اب تک کی معلومات آپ کے سامنے رکھیں گے۔ ایران صدر کے قافلے میں شامل ایک ہیلی کاپٹر کو اتوار کے روز اس وقت ‘حادثہ’ پیش آیا تھا جب وہ آذربائیجان کے ساتھ ایرانی سرحد پر ایک ڈیم کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ اس حادثے کے باعث ہیلی کاپٹر میں سوار تمام نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ بیل 212 نامی ہیلی کاپٹر تھا جس میں ابراہیم رئیسی کے علاوہ ایران کے وزیرِ خارجہ امیر عبداللہیان، ایران کے مشرقی آذربائیجان صوبے کے گورنر ملک رحمتی، تبریز کے امام محمد علی الہاشم اور عملے کے ارکان سوار تھے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اتوار کو ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد سے جہاں ایک جانب دنیا بھر کے رہنماؤں کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں اس ہیلی کاپٹر کے بارے میں بھی بحث ہو رہی ہے جسے اتوار کو حادثہ پیش آیا تھا۔ایرانی صدر جس ہیلی کاپٹر میں سوار تھے یہ ہیلی کاپٹر 1960 کی دہائی میں کینیڈین فوج کے لیے بنایا گیا تھا۔ امریکی فوجی تربیت سے متعلق دستاویزات کے مطابق 1971 میں اس ہیلی کاپٹر کو امریکہ اور کینیڈا نے اپنے بیڑے میں شامل کر لیا تھا فلائٹ گلوبل کی 2024 کی عالمی فضائیہ کی ڈائریکٹری کے مطابق ایران کی فضائیہ اور بحریہ کے پاس ایسے 10 ہیلی کاپٹر ہیں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر کتنے عرصے سے استعمال میں تھا اور ایران کی حکومت ان میں سے کتنے ہیلی کاپٹر استعمال کرتی ہے اس سے قبل یہ ہیلی کاپٹر ستمبر 2023 میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ پھر ایک پرائیویٹ آپریٹر کا یہ ہیلی کاپٹر متحدہ عرب امارات میں گر کر تباہ ہو گیا اس قسم کا حادثہ ایران میں 2018 میں پیش آیا تھا تب اس حادثے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہیلی کاپٹر گرنے کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن ہوائی نقل و حمل کی حفاظت کے معاملے میں ایران کا ریکارڈ خراب رہا ہے اس کی ایک وجہ کئی دہائیوں سے عائد امریکی پابندیاں بھی بتائی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ایران کا ہوابازی کا شعبہ کمزور ہوا ہے ۔ابراہیم رئیسی بیل 212 ہیلی کاپٹر پر سوار تھے۔ یہ ماڈل امریکہ میں بنایا گیا تھا۔ ماضی میں ایران کے دفاع اور ٹرانسپورٹ کے وزرا کے علاوہ ایران کی فوج اور فضائیہ کے کمانڈر بھی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کے حادثوں میں ہلاک ہوئے ہیں ،مئی 2001 میں ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ کا طیارہ بھی گر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس کا ملبہ ڈھونڈنے کے لیے کافی کوششیں کرنا پڑی تھیں۔ اس طیارے میں 28 افراد سوار تھے اور بتایا گیا تھا کہ حادثے میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا جب ایرانی حکومت کی جانب سے ملکی طیاروں کو جدید بنانے کی کوششیں کی گئیں تو مغربی ممالک کے ساتھ بھی کچھ معاہدے کیے گئے اور اس میں پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے بھی بات کی گئی تھی۔ اس حادثے کا دوسرا اہم پہلو وقت ہے کہ جب ایران اسرائیل تنازعہ پراکسیز نہیں بلکہ براہ راست شدت کے ساتھ بڑھا ہے اور دوسری جانب ایران کا جھکاو روس، چین اور دیگر ممالک کی جانب بہت زیادہ بڑھ رہا ہے ابراہیم رئیسی کی شخصیت بھی اس میں انتہائی اہم فیکٹر تھا جو ڈپلومیٹک سطح پہ خود مختلف ممالک کے ساتھ انگیج کررہے تھے اور اسی وجہ سے یہ قرار دیا جارہا ہے کہ شاید ان کو عالمی سازش کے تحت نشانہ بنایا گیا ہو ، اس حوالے سے تاحال یقینی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگاکیونکہ ایرانی حکام بھی اس حوالے سے شواہد حاصل کرنے میں مصروف ہیں ،لیکن حادثے کی وجوہات کا سامنے آنا ضروری ہے۔
٭٭٭