ایک بار پھر تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔افغانستان سے پہلے بات ہے یہ1975کی کہ امریکہ کو ویتنام میں پسپائی ہوئی تھی۔اسی طرح دوسرے ممالک امریکہ کے ساتھ اس جنگ میں شمالی ویت نام جو کمبوڈیا اور لائوس کے ساتھ کمیونٹ رحجان کا حامی تھا کو تہس نہس کرنے پر تلے ہوئے تھے۔اور نتیجہ میں 1955 سے 1975 تک امریکہ اپنے85ہزار سے زیادہ فوجی مروانے کے بعد ایک ایسے مقام پر کھڑا تھا جہاں پر امریکی سیاست دانوں پر عوام کا شدید دبائو تھا وہ کمیونزم کو روکنے میں امریکن فیملیز کو بھی دائو پر لگا چکا تھا کہ18سال عمر سے بڑے بچے کو زبردستی ڈرافٹ کرکے ویت نام کے گھنے جنگلوں میں لڑنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ہر کوئی اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہا تھا۔غیر ملک کے جغرافیہ اور انکی چالوں سے ناواقف معصوم شہری گاجر مولی کی طرح بم دھماکوں کی نذر ہو رہے تھے۔اور بالآخر نکسن صدر کے بعد صدر فورڈ نے امریکی فوجوں کا ویت نام سے انخلا اسی طرح کروایا تھا جس طرح آج اپنے ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں۔یہ منظر اور وہ منظر آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے۔یہ1975کی بات ہے جب ہم نے ایک امن پسند اور طاقتور ملک کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔اور ہم سوچ رہے تھے کہ امریکہ کی بیرونی پالیسی امن پسندی کی ہے یا تحس نحس کرنے کی بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ دوسری بات سچ ہے۔امریکہ کی سیاست میں کچھ ملک دشمن اور اپنے ذاتی مفاد کے حامی لوگ سوار ہوچکے تھے۔ہمیں خوشی تھی کہ ویت نام میں بے گناہ امریکی جوانوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں اس سے نجات ملی اور اس کے علاوہ304ہزار لوگ زخمی حالت میں امریکہ واپس آئے تھے ان میں سے آدھے زندگی بھر کیلئے اپاہج ہوگئے تھے۔اور آدھے سے کچھ کم اپنے چاہنے والوں سے جدا ہوکر دماغی مریض بن چکے تھیاور یہاں سے امریکہ کے خوبصورت اور امن پسند اور غیر ملکی مہاجروں سے محبت کرنیوالے معاشرے میں ڈرگ(ہیروئن نشہ آور اشیائ)کی شروعات پر بنی ایک فلم ضرور دیکھیں اس کا نامTHE DEER HUNTERہے۔یہ فلم1978میں رہلیز ہوئی تھی گاڈفادر فلم کے اہم کردار رابرٹ ڈی نیرو اور تین دفعہ آسکر ایوارڈ جیتنے والی میرل اسٹریپ کی یاد رہنے والی اداکاری ہے یہ فلم سے زیادہ تاریخ ہے اور اس زمانے میں روس اور امریکہ کی کولڈ وار کی جھلک ہے۔یہ فلم دیکھ کر آپ کو یہاں کے لوگوں سے ہمدردی،محبت اور قربت ہوجائیگی اور اس ملک سے بے پناہ عقیدت بھی یہ ان لوگوں کیلئے ہے۔جو یہاں بس کر اس ملک کے کلچر میں سوراخ کرتے ہیں لوٹ مار کرتے ہیں ابھی35ملین ڈالر کا فراڈ کرکے فرار ہوکر پاکستان میں اڈیالہ جیل میں بند مجاہد پیٹر پرویز کا خیال آیا جنہوں نے اسی اور نوے کی دہائی میں14فارمیسی کھول کر میڈیکیڈ(ریاست نیویارک کی طرف سے ملنے والی علاج کی مفت سہولتیں)فراڈ کیا تھا ایسے کئی لوگ تھے جو پکڑے گئے تھے یا ملک چھوڑ کر روپوش ہوگئے تھے۔
اب آتے ہیں افغانستان کی طرف جہاں آج کی تاریخ میں طالبان20سال بعد پوری طرح قابض ہیں۔BBCبار بار ایئرپورٹ کا منظر دکھا رہا ہے جہاںC-130(امریکن سامان بردار)کابل ایئرپورٹ کے رن وے پر لینڈ کرکے ٹرمیک کی طرف بڑھ رہا ہے۔اور ہزاروں افغانی اسکے پہیوں کے آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔کچھ ہوائی جہاز کے ونگ پر چڑھ رہے ہیں کچھ لٹک رہے ہیں اور اسی جدوجہد میں کوئی پچاس کے قریب کچلے جاچکے ہیں۔ان سب کو اپنی جانیں پیاری ہیں وہ طالبان سے اس قدر خوفزدہ ہیں اس کے علاوہ ہر کسی کو امریکہ ہی پناہ کی سرزمین لگتی ہے یہ ان کا حق بھی ہے کہ امریکہ نے20سال میں3ٹریلین ڈالر اور سینکڑوں امریکی فوجیوں کی جانیں گنوا کر کوئی سبق اگر سیکھا تو یہ ہی کہ وہ جہاں بھی گئے۔(عراق، لیبیا، شام اور مصر بھی)وہاں افراتفری پھیلا کر منہ موڑ لیا۔ویسے تو برطانیہ کا سورج بھی کبھی غروب نہیں ہوا لیکن برطانیہ جہاں بھی گیا ان ملکوں کو بہت کچھ دے کر نکلا۔ پہلا سبق، برطانیہ کا ہی تھا کہ افغانستان شجر ممنوع ہے۔جنت سے آدم حوا کو نکالا گیا تھا اور اب روس کے بعد امریکہ(بظاہر) کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ایک تو یہ کہ امریکہ20سال میں بہت کچھ کھو کر مزید کھونا نہیں چاہتا تھا۔یا پھر کوئی نیا ورلڈ آرڈر تیار ہو رہا ہے۔ہمارا دل نہیں مانتا کہ امریکہ کو ذلت آمیز پسپائی ہوئی ہے۔ورنہ اتنی آسانی سے وہ سب کچھ ان طالبان کے حوالے کرکے رات کی تاریکی میں نہ نکلتا ایک خیال اور بھی آتا ہے کہ وہاں کچھ نہیں ملا جس کی تلاش تھی۔نہ تیل نہ معدنیات یا پھر امریکہ نئی سوچ کے مطابق اپنے سینے پر مونگ دلتی نہیں دیکھ سکتا ۔ہمارا اشارہCPECکی طرف ہے کہ ہم شروع دن سے سوچ رہے ہیں کہ امریکہ کیوں خاموش ہے دراصل یہ امریکہ اور امریکن نہیں ہیں اور نہ ہی امریکہ کا صدر یا صدور یہ لوگ وہ ہی کرتے ہیں جو ان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ چند طامع کارپوریشن ہیں جو یہ کھیل کھیلتی ہیں اور عوام کو DAY TO DAY زندہ رکھتی ہیں۔عام سے عام امریکن کی زندگی کو اجیرن بنا رہی ہے مہنگائی اور دوسرے لوازمات (انٹرنیٹ) گھر گھر پہنچا کر اس میں جو اہم عنصر ہے۔وہ لالچ ہے زیادہ سے زیادہ منافع کم سے کم امریکن کو ملازمتوں کی فراہمی ایک تفصیل ہے۔
صدر بائیڈن کے اس اعلان کے بعد کہ”یہ ہماری ٹریجڈی نہیں کہ طالبان آرہے ہیں اور امریکہ جارہا ہے یہ قطعی بات ہے۔”اور اس سے پہلے صدر ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا تھا اور بائیڈن ہر چند کہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں نے ٹرمپ کی بات کو جاری رکھا۔اس پہلے جونیر بش کے ورلڈ آرڈر کو انکے جانے کے بعد ڈیموکریٹک اوبامہ نے توسیع دی تھی۔بغیر کسی ردوبدل کے اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔نئے نئے ورلڈ آرڈر جمہوریت کے علمبردار اور دعویدار امریکہ کی بیرونی پالیسی کوئی اور بناتا ہے۔وہ کوئی اور کون ہے یا ہیں ہم پچھلے کئی سالوں سے تلاش کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل(سب سے کمزور سیکرٹری)انتونیوگتریس نے بھی اپنی حاضری یہ کہہ کر لگوائی ہے”طالبان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا مطلب اصولوں کا پاس رکھنا ہوگا۔کیا کہنے دنیا میں افراتفری کو بڑھاوا دینے والے کا لیکن ہم طالبان سے کہتے چلیںیہ موقع اگر امریکہ نے نہیں اللہ نے دیا ہے تو اسلام کو حضورصلعم اور عمر کے انصاف پر چلا کہ افغانستان میں حکومت کریں۔تعلیم ایک اہم عنصر ہے اور خواتین کو تعلیم سے آراستہ کریں ابھی تک روس نے تسلیم کیا ہے ان سے مشورہ کریں لیکن ذہن میں رکھیں امریکہ کی نظریں نئے ورلڈ آرڈر پر ہیں۔