مجھے امریکہ آئے تقریباً 41 سال ہونے کو ہیں لیکن جب بھی عزاداروں کا جلوس شروع ہو پہلے دن سے ساتھ ہوں اور فخریہ جا کر اخبار میں آنکھوں دیکھا حال لکھ سکتا ہوں۔ عزاداری سرکار امام عالی مقام سید الشہداء امام حسین میں داداگیری کا تصور ہمارے ہم وطنوں کے سوا کہیں پر موجود نہیں۔ میں نے ایک پرانی ویڈیو دیکھی تھی جس میں عاشور کے روز ایک شیعہ آبادی والے ملک ایران کے صدر احمدی نژاد اپنے دور صدارت میں اپنے فلیٹ سے اترتے ہیں، سیاہ لباس میں ملبوس نوحہ خوانی کرتے ہیں اور ماتم حسین کرتے ہیں۔ یہی حال عراق کے موجودہ و سابقہ وزیر اعظموں کا ہے۔ ہمارے دوست آیت اللہ علامہ قبلہ ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی نے جامعت المہدی کے دروس خطابت کورس میں بتایا تھا کہ انکے استاد آیت اللہ العظمی شیخ جواد تبریزی اپنے گھر سے ایک میل جلوس عاشوراء میں ننگے پاؤں چلتے تھے۔ انکے فرزند آیت اللہ شیخ جعفر تبریزی اس وقت صاحب توضیح المسائل ہیں جو خود ہمارے استاد کیلئے شاگرد ہیں۔ وہ بھی عجیب عقیدت سے عزائے حسین علیہ السلام مناتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ انکے استاد آیت اللہ العظمی نجفی مرعشی اپنے دور مرجعیت میں دس روز مجالس عاشور میں نہ فقط عزاداروں کی جو تیاں جوڑتے تھے بلکہ جوتیوں کے بوسے بھی لیتے تھے۔ عرب و عجم کے شیعہ فرمانرواؤں ، اود کے بادشاہوں، قزلباشی نوابوں اور آصف جاہی نظاموں کو نیازیں پکاتے، برتن دھوتے اور جھاڑو دیتے آئین تاریخ نے دیکھا ہے۔ میں نے صفویوں کی تاریخ دیکھی، ترکوں کے تبرکات کے بارے پڑھا، رومیوں کے عجائب گھروں کے بارے میں عزاداری کے تبرکات کا مطالعہ کیا۔ افریقہ و امریکہ، کینیڈا و آسٹریلیا، برطانیہ و یورپ، مشرق و مغرب حتی عرب و عجم میں شہدائے کربلا کے ساتھ جو خلوص دیکھا پڑھا سمجھا ہے اسنے قبلہ فکر کو جلا بخشی ہے۔ ماتھور لکھنوی کے اشعار اور ہندوؤں، سکھوں کی ماتمی انجمنوں کے اختلاف مذہب کے باوجود اخلاص اور عقیدت نے نام نہاد، انا کے بیمار عزاداروں کی جعلی شخصیتوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر عزاداری حسین بھی انسان کو نہ سکھا سکے تو پھر کہاں سے ادب و ادبیات سیکھیں گے؟ جلوس عاشور میں میں نے حاضری دی ہے اللہ مومنیں کو سلامت رکھے۔ کیا جوش و جذبہ ایمانی ہے۔ مین ہیٹن کی لبیک یا حسین سلام یا حسین شاہ حسین واہ حسین ہائے حسین وغیرہ کی صدائیں دور حاضر کے یزیدیوں کی نیندیں حرام کر دیتی ہیں۔ عاشور کے قریب مینہاٹن کے اس جلوس میں نماز ظہرین سے آغاز ہوتا ہے اور پانچ بجے سفارت پاکستان پر اختتام ہوتا ہے۔ نوحہ خوانی سینہ زنی بے نظیر ہوتی ہے ۔پچھلے سال کی طرح کہ قبلہ البنی سٹیٹ سے تشریف لائینگے ظہر کی نماز کی امامت فرمائینگے اور انکی تقریر بھی سنیں گے۔ جس خلوص سے وہ فضائل و مصائب پڑھتے ہیں۔ امریکہ میں بلکہ عالم و جہان اردو میں انکا ثانی کوئی نہیں۔ ہمیں مایوسی ہوئی۔ انہوںنے کہہ رکھا ہے کہ 12 محرم تک فون نہیں کرنا اسلئے کہ ادھر ادھر سے معلوم کیا تو جلوس میں تشریف فرما بڑوں سے پوچھا۔ معلوم ہوا کہ قبلہ اصطفی نقوی صاحب کو جاوید صاحب نے خبر دی کہ مون رضوی صاحب قبلہ مولانا صاحب کی توہین کرینگے جس پر نقوی صاحب نے مولانا کو البنی سٹیٹ سے آنے سے روک دیا ہے۔ یہ بات شیعوں ہی میں رہ جاتی اگر وہاں اہل سنت موجود نہ ہوتے یا پھر میڈیا نہ ہوتا۔ جناب اصطفی صاحب کسی کو بتا رہے تھے کہ مون صاحب نے کوئی پوسٹر شائع کرایا تھا بقول جاوید صاحب وہ مولانا کی بے عزتی کرتے اسلئے انہیں روکا گیا۔ حقیقت حال تو 12 یا 13 محرم کو پتہ چلے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بقول جاوید صاحب کے مون صاحب نے کوئی پرمٹ بھی لے رکھا تھا۔ پولیس سے مولانا کے خلاف لکھی ہوئی تحریر کا واللہ العالم بالصواب میری گزارش ہے قبلہ اصطفی سے جو میرے محسن بھی ہیں۔ آپ اس پرمٹ کی کاپی مون صاحب سے یا پولیس سے یا جاوید صاحب سے لیکر مجھے وٹس ایپ کر دیں تاکہ غلط فہمی کا ازالہ ہو۔ مون صاحب الخوئی میں اکیلے جلوس نکال چکے ہیں۔میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا الخوئی والوں نے مجلسیں کینسل کر دی تھیں۔ سورہ حجرات میں لکھا ہے کہ ”جب کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو ”جناب قبلہ اصطفی کو بقول انکے مون صاحب نے کال نہیں کی۔ انہیں صرف جاوید صاحب نے اطلاع دی اور پھر ایک ایسے شخص سے ایک میسیج کروایا گروپ میں جو سادات و مومنین کو ناموس کی گالیاں دیتا ہے اور جھوٹ بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔ یا علی مدد گروپ میں برادر رضا کا پیغام اور جاوید صاحب کی خبر باعث بنی کہ اصطفی صاحب نے مولانا کو منع کر دیا۔ اصطفی صاحب نے ایک طرف تو وعدہ خلافی کی دوسرے طرف اگر یوں ہم بلیک میل ہونے لگے تو کل کسی کی عزت محفوظ نہیں رہیگی۔ مون صاحب تو خود شائد چار بجے آئے انہوں نے مولانا کی بے عزتی کرنی ہوتی تو وہ بارہ بجے آتے اور کسی کی جرأت ہے کہ اتنے بڑے عالم کی بے عزتی کرے۔ جبکہ پورا امریکہ انکے ساتھ ہے۔ پھر پولیس کس مرض کی دوا ہے ؟ یہاں میں یہ بھی پوچھونگا کہ جسکے میسیج پر قبلہ اصطفی نے میرے محسن استاد کو روکا وہ برادر رضا جلوس میں کہاں تھا ؟ کوئی تصویر ؟ یا پچھلے سال کہاں تھا ؟ یا اس سے پچھلے سال یا کسی بھی سال کی اسکی تصویر دکھا دیں۔ یا کسی مجلس میں دیکھا گیا ہو۔ کیا جلوس میں شریک ہزاروں لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں کہ ایک فاسق کی جعلی خبر پر ایک مخلص خدمت گزار عالم کی توہین کی جائے۔ کیا ان کی بتیس سال کی خدمات عزاء یا خدمات قوم کا یہی صلہ ہے۔ جو انہوں نے کرونا میں مرحومین کو غسل دئیے ہیں انکا یہ صلہ ہے۔ انہیں12 ربیع الاول کے جلوس میں عزت و تکریم اور عاشوراء کے جلوس سے روکنا اہل تشیع کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ یہ داغ دھونے سے نہیں دھلے گا ۔جلوس میں موجود ایک بزرگ نے بتایا کہ قبلہ نہیں چاہتے کوئی جھگڑا ہو وہ اسلئے نہیں آئے۔ آفرین ان کی عظمت کو سلام اور فاسقوں کی سازشوں پر نفرین۔
اس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے کہ امریکہ میں عزاداروں کا جلوس اپنی جگہ ایک مثال ہے اسے سیاست کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں، ایک دوسرے کو قریب لانے کی کوشش کریں ورنہ بات بڑھی تو نقصان ہی نقصان ہے۔