دنیا کے لیڈر، دانشور، لکھاری، جواری سبھی سر پکڑ کر بیٹھ ہوئے ہیں کہ آخر پلک جھپکتے ہی افغانستان میں اقتدار اشرف غنی سے طالبان کے ہاتھ کیسے پہنچ گیا۔ سوشل میڈیا سے لے کر کنوینشنل میڈیا تک اگر کسی موضوع پر بات ہو رہی ہے تو وہ اسی بات کا احاطہ کررہی ہے کہ یہ اچانک کیسے ہوگیا؟ سچ پوچھئے تو تصور یہی کیا جا رہا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد ایک بار پھر میدان گرم ہوگا، افغانستان کے گلی کوچے، چوک اور بازار گولیوں کی بارش اور تڑپتے ہوئے انسانی لاشوں کے منظر پیش کریں گے، ہر طرف دھماکوں کا ساز سنائی دے گا۔ مگر یہ کیا ہو گیا بھائی؟
امریکی صدر جو بائیڈن کا قوم سے خطاب دیکھا جائے تو اس میں بھی اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے اس طرح طالبان کے خلاف مزاحمت نہیں کی جس کی توقع کی جا رہی تھی، حالانکہ امریکہ نے اربوں ڈالر لگا کر نہ صرف افغان سکیورٹی فورسز کو جدید اسلحہ سے لیس کیا بلکہ انہیں ٹریننگ دینے سمیت دیگر سہولیات سے بھی آراستہ کیا۔دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جو سر پکڑ کر یہ سوچنے پر مجبور نہ ہو کہ کہ سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک روزانہ کتنے ہی صوبے ان کے زیر قبضہ ہوتے چلے گئے۔ پاکستان میں بی بی سی کے نامور کالم نگار وسعت اللہ خان کا اپنے ایک کالم میں طالبان کی اس جلد بازی کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا کہ جب تک ہم اپنی کرسی سے اٹھ کر ٹائلٹ تک جاتے اور واپس آتے تب تک خبر آچکی ہوتی تھی کہ طالبان ایک اور صوبے پر قبضہ کر چکے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ چند ہزار امریکی افواج کے ہوتے ہوئے افغان طالبان کو کبھی اتنی جرات نہیں کہ وہ اس طرح تیزی سے پیش قدمی کرتے، مگر اس کے فوری بات آخر ایسا کیا ہوا؟ شاید مستقبل میں اس بات کا جواب سامنے آجائے مگر فی الحال تو یہی معلوم ہوتا ہے افغان سکیورٹی فورسز کے اوپر اربوں ڈالر لگانے کے باوجود ان میں اپنے وطن کی مٹی سے محبت کا جذبہ پیدا نہ ہو سکا، یا افغانستان کے اندر کرپٹ نظام نے ان کے دماغوں کو اتنا مفلوج کر دیا تھا کہ وہ جنگ لڑنے جیسی مشق کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ دنیا کی تاریخ میں گواہ ہے کہ افواج نے بھی اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ کر سیاست یا دیگر شعبوں میں دخل اندازی کی کوشش کی، یا دفاع کے نام پر کرپشن کو فروغ دیا وہ کبھی بھی میدان جنگ میں سیسہ پلائی دیوار ثابت نہیں ہوسکے۔
عددی طور پر دیکھا جائے تو افغان سکیورٹی فورسز کی تعداد طالبان سے دوگنا تھی مگر پیشہ ورانہ طور پر دیکھا جائے تو وہ سمندر پر جھاگ کی طرح ثابت ہوئے۔ شاید کہ ہمیں اس سے کچھ سبق سیکھنے کو مل جائے۔ افغانستان میں طالبان کے پنجے مضبوط ہونے کے بعد ایک خدشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ پاکستان میں بھی پاکستانی طالبان کوئی دوبارہ سے سرگرمیاں شروع نہ کردیں۔ الحمداللہ اس معاملے میں ہم اپنی افواج پر فخر کر سکتے ہیں، جنہوں نے ماضی میں مختلف آپریشنز کے ذریعے انہیں کمزور اور محدود کر دیا۔ ہمیں آج بھی اس بات پر پورا اطمینان ہے کہ یہ پاکستان میں پاکستانی طالبان کے سر اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان کی افواج میں اوپر کی سطح پر موجودہ جرنیل سیاست میں اگر مداخلت کرتے بھی ہیں تو نچلی سطح پر ہماری دھرتی کی شان وہ سپاہی موجود ہیں جو ایک ایک انچ کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ خوف آتا ہے تو صرف یہ سوچ کر کے افواج اپنی پیشہ ورانہ حدود سے باہر نکل کر جب سیاست اور دیگر شعبوں میں دیکھنے کی عادی ہوجائے تو وہ میدان جنگ میں ہارے ہوئے غازی تو دیتی ہے مگر جیتے ہوئے شہید دینا ان کے لیے قدر مشکل ہو جاتا ہے۔