فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! امیرالمومنین، خلیفہ المسلمین، خلیفہ اوّل بلافصل، افضل البشربعدالانبیائ، جانشین مصطفیٰ حضرت عبداللہ بن ابی قھافہ رضی اللہ عنھما آپ کے القابات ابوبکر، صدّیق اور عتیق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت مقام عطا فرمایا ہے، اہل حق کے نزدیک فیصلہ کن بات ہے کہ آپ انبیاء علیھم الصّلٰوة والسّلام کے بعد انسانوں کے سردار ہیں اور آپ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بلافصل ہیں۔ آپ کا وصال مبارک بائیس جمادی الثانی13سن کو ہے۔ آپ محبت حبیب خدا اور اپنے صدق وصفاء کی بدولت اس قدر جامع الکمالات اور مجمع الفضائل ہیں کہ قرآن مقدس کی بہت سی آیات طیّبات آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور احادیث کریمہ میں آپ کے کثرت فضائل کا یہ حال ہے کہ خاص آپ کے فضائل میں(181)حدیثیں مروی ہیں اور(88) احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں آپ کے نام کے ساتھ حضرت عمر رضی اللّہ عنھما کا نام بھی آیا ہے۔(17) احادیث مبارکہ ایسی ہیں کہ جن میں آپ رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھا کا نام آیا ہے۔(16)احادیث ایسی ہیں کہ جن میں ان تینوں ناموں کے ساتھ ساتھ حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس طرح کل(316) احادیث مبارکہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی لے کر سرکار دو جہاں، امام الانبیا،ۖ نے عظمتوں کا بیان فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ بہت ساری آیات طیبات اور احادیث میں سابقیں واوّلین اور مجاہدین ومہاجرین وغیرہ کے فضائل میں ضمنی طور پر آپ کے فضائل وضاقب اس کثرت سے مذکور ہیں کہ ان کا شمار دشوار ہے۔الغرض فضائل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی آیتوں اور حدیثوں پر نظر ڈالنے کے بعد بلاخوف تردیدیہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن وحدیث میں جس کثرت سے پیارے رسولۖ کے یار غار یعنی صدیق باوقار خطبہ پڑھا گیا ہے ،اتنا کسی بھی صحابی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ تمام مفسرین کا متفقہ بیان ہے کہ غارثور میں ہجرت کی رات حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی بھی محبوب خدا کا یارغار، وفادار اور غمگسار نہیں تھا اور واقعی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت احمد مختارۖ کے ایسے یار غار اور وفادار جاں نثار ثابت ہوئے کہ وفاداری وجاں نثاری کی انتہائی منزل بیان کرنے کے وقت آپ کا لقب ضرب المثل بن گیا ہے چنانچہ آج بھی اگر کوئی شخص کسی کا انتہائی محبّ غم گسار اور اعلیٰ درجے کا وفادار ہو تو اس موقع پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص قلاں کا یارغار ہے۔اِذیَقْوْلْ لِصَاحِبِہِ والی آیت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا ثبوت ہے۔ اس لئے آپ کا صحابی ہونا قطعی اور یقینی ہے اگر کوئی بدنصیب آپ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو وہ قرآن کا منکر اور کافر ہوجائے گا۔ اسی طرح اس آیت میں ہے ”فَاَنَزَل اللّہْ عَلیہِ” تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوند قدوس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر سکینہ اتارا یعنی اپنی طرف سے قلبی اطمینان اور روحانی سکون کا سامان حضرب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قلب مبارک پر اتارا۔ اس آیت میں عَلَیِہِ کی ضمیر کا مرجع یقیناً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور خدا تعالیٰ نے سیکنہ انہیں پر اُتارا کیونکہ نبی کریمۖ کا مقدس مہینہ تو ہمیشہ اور ہر حال میں سکینہ الٰہی کا سفینہ رہا اور آپ کا قلبی سکون تو ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی زائل ہی نہیں ہوا تھا۔ اس لئے غار ثور میں آپ پر سکینہ اترنے کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ گھبراہٹ اور بے قراری تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے قلب انور میں تھی۔ اس لئے انہیں کے دل پر سکینہ اُترنے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا وہ پوری ہوگئی یہ ہے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا رتبہ بلند کہ خداوند تعالیٰ ان کی صحابیت پر اپنی شہادت کی مہر لگاتا ہے اور ان کو ا پنے محبوب کا یارغار فرماتا ہے اور ان کے سفینہ قلب پر اپنا سکینہ رحمت نازل فرماتا ہے۔ یہ اعزاز وشرف اور ع ظمت وکرامت کی وہ سربلندیوں ہیں جو کسی اور صحابی کی قسمت میں نہیں آئیں۔ خدا کی قسم! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سر صداقت پر یہ اعزازو اکرام کے وہ تاج شہنشاہی ہیں جن کو دیکھ کر اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا یعنی یہ سب اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے دوسرے مقام پر خداوند عالم جلّ جلالّہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ”اتقی” کا خطاب عطا فرمایا ہے یعنی سب سے زیادہ پرہیز گار فرمایا: ترجمعہ: جہنمّ سے بہت دور رکھا جائے گا وہ سب سے بڑا پرہیز گار جو اپنا مال اس لئے دیتا ہے کہ وہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے اور وہ صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے۔ اور عنقریب وہ ضرور خوش ہوجائے گا(سورة الفّیل پارہ نمبر30)اسی طرح عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھم نے فرمایا کہ قرآن مجید میں سورہ تحریم پارہ نمبر28کی آیت نمبر3صالح المومنین سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں(ترجمعہ آیت) بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔ الغرض قرآن مجید کی بہت سی آیتیں آپ رضی اللہ عنہ کی فضلیت پر دلالت کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭