جب بھی کوئی ترقی پسند شاعر ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو ہم لوگ اسے حبیب جالب کی تمثیل قرار دیتے ہیں۔ اگر اسکی شاعری، عالمی سطح کے مسائل کا احاطہ کرتی ہو تو ہمارے ذہنوں میں فیض احمد فیض کا نام ابھرتا ہے جمال کے کلام کے بغور مطالعہ کے بعد جو رائے قائم ہوتی ہے اس سے صرف وہی لوگ اختلاف کریں گے جنہوں نے جمال کو نہیں پڑھا لیکن ہر وہ راست فکر اور روشن خیال انسان جو جمال کو پڑھ لے وہ اسکا ہم خیال ضرور بن جائے گا۔ جمال جرات و بے باکی میں جالب اور فیض سے ہر گز کم نہیں ہیں۔ جالب فیض اور فراز نے ریاستی جبر اور نا انصافی کو خوبصورت استعاراتی انداز میں پیش کیا ہے جبکہ جمال نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ببانگ دہل ظلم کو ظلم کہا ظالم کو اسکی اوقات یاد کرا دی ہے۔ ایک اور چیز جو جمال کو بلند و بالا مقام پر فائز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے جابروں اور لٹیروں کو ان کے ناموں کے ساتھ مخاطب کیا ہے جبکہ سابقہ ادوار میں ایسی مثالیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں!
ڈنڈی پہ پڑھ کے پھونک کے سالار نے مرے
جب چھو کیا تو ہوگیا عمران لاپتہ
جمال کے غیر متزلزل انداز بیان کی خوبصورتی ملاحظہ فرمائیں
اے مصور ترے شہکار ہیں میرے جیسے
سب نہیں، بس یہی دو چار ہیں میرے جیسے
دیکھ جو حوصلہ دار و رسن رکھتے ہیں
جان دینے کو بھی تیار ہیں میرے جیسے
ایسا نہیں ہے کہ جمال کے ہاں استعاراتی نظام موجود نہیں ہے لیکن جہاں جہاں انہوں نے اشاروں کِنائیوں میں بات کی ہے وہاں وہاں اپنے کلام کے آخر میں اضافی وضاحتی نوٹ لکھ کر متعلقہ شخصیت کو ظاہر بھی کر دیا ہے!
اک زرا سی اور کاوش اک زرا سا مرحلہ
تم مٹا دو دیس میں ظلم و ستم کا سلسلہ
تم گِرا دو تاجِ سلطاں، چھین لو یہ تخت و تاج
پھر تواہلِ حق کا سارے دیس پر ہونا ہے راج
جمال کا قلم جب حقائق بیان کرنے لگتا ہے تو مصلحتیں اسکا راستہ روکنے میں ناکام رہتی ہیں وہ امریکہ میں رہتے ہوئے وہاں بھی بے باکانہ انداز میں شعر کہنے کا انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ عالمی پس منظر کو بھی سامنے رکھتے ہوئے انصاف دینے میں تاخیر کرنے والی عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ وہ عیاش فوجی جرنیلوں کو واشگاف انداز میں للکارتے ہیں۔ وہ پولیس، صحافی، سیاستدان اور کرپٹ بیوروکریٹس کو بے نقاب کرتے ہوئے بالکل بھی نہیں ہچکچاتے!
ذرا یہ اشعار دیکھئیے یہ جمال کی ذات کا اظہاریہ بھی ہیں
میں ایسے دیس کا باسی ہوں جس دیس کے مجرم منصف ہیں
میں ایسے قاضی رکھتا ہوں معذور عدالت رکھتا ہوں
ہر فوجی میرا اپنا ہے میں اس سے محبت کرتا ہوں
جو فوجی غاصب جنرل ہیں میں اس سے عداوت رکھتا ہوں
جالب تو نہیں، منصور نہیں، میں سیدھا سادا شہری ہوں
ہوں حق و صداقت کا داعی اور اس میں شدت رکھتا ہوں
عہد حاضر کے ادبی منظر نامے میں جمال سے بڑھ کر جرات مند شاعر دوسرا کوئی نہیں پاکستان میں رہتے ہوتے تو اب تک اٹھا لئیے جاتے اور معافی نامہ لکھے بغیر واپسی ممکن نہ ہوتی جیسے احمد فرہاد کو اٹھا لیا گیا اور افکار علوی سے بیان حلفی لکھوایا گیا۔ لیکن میرا ایمان ہے کہ وہ پاکستان میں رہتے ہوتے تب بھی وہ اسی کاٹ دار انداز میں سچائی کو بیان کر رہے ہوتے کہ وہ ان کی سرشت میں شامل ہے۔ ان کی شاعری میں موجود موضوعاتی تنوع کو دیکھیں ان کی شاعری پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے تفکر کا میدان عالمی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو بھی احاطہ تحریر میں لاتے ہیں وہ جس انداز فکر کے ساتھ معاملات کو دیکھتے ہیں ہر محب وطن شہری اور امن پسند انسان کو ان کی شاعری، اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے۔ انکے دو اشعار دل کی آواز کے طور پر
لہو سے دیس کی مٹی کو خود سیراب کرتے ہیں
دئیے کو خون دے کر رات میں مہتاب کرتے ہیں
مجاہد یہ فلسطین کے یہ آزادی کے دیوانے
یہ جل مرتے ہیں آزادی پہ آزادی کے پروانے
جمال ایک ایسے امریکی شہری ہیں جو وہاں کے معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں پر ان کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے اسکے ساتھ ساتھ وہ ایسے صاحب دل انسان ہیں جو کسی بھی جگہ ہونے والی ظلمت کو بیان کرنا اپنا فرضِ اولیں سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کے مسائل پر جس شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ قابل داد اور لائق ستائش ہے۔ وہ پاکستان کو پر امن اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں شاید وہ مداوا کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے بنائے ہوئے مزائل پاکستان اور اقوامِ عالم پر برستے ہیں وہ درد دل رکھنے والے انسان ہیں پر روزگار کے ہاتھوں مجبور بھی ہیں کاش کہ ان کی خدمات سے پاکستانی ریاست فائدہ اٹھا سکتی جیسے عبدالقدیر خان سے اٹھایا گیا۔ وہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں جمال کے لہجے کی کاٹ وطن کی مٹی سے محبت کی غماز ہے۔ جمال اپنی دھرتی کی سالمیت پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ کاش ہر پاکستانی کے دل میں اپنے وطن سے جمال جیسی محبت پیدا ہوجائے۔ مجھے یقین ہے کہ جو بھی میری پبلش کی ہوئی یہ کتاب پڑھے گا اس کے اندر وطن کی محبت ضرور پیدا ہوگی اور وہ وطن کو نقصان پہنچانے والوں سے نفرت بھی ضرور کرے گا اور یہی انداز فکر ایک نہ ایک دن انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور جہاں بھی انقلاب برپا ہو اس میں جمال کی مزاحمتی شاعری کا بھی بھرپور حصہ ہوگا
( ڈاکٹر جمال قادری کی آنے والی کتاب کے لیے لکھا گیا
٭٭٭