تیسری قسط
تاریخی اسماء کتب کے علاوہ آپ نے مختلف موقعوں پر مختلف سانحات سے متاثر ہو کر مادہ تاریخ کا بھی آیات قرآنیہ یا الفاظ آیات قرآنیہ سے استخراج کیا۔ مثلاً اپنے جدّ امجد حضرت مولانا رضا علی خان علیہ الرحمہ کی تاریخ وصال”آلَاَ اِنَّ آوْلِیَائَ اللہِ لَا خَوْفُ عَلَیْھِہْ وَلَا ھُمْہ یَْزَنُوْنَ۔” سے (١٢٨٢ھ) ، والد مکرم حضرت مولانا نقی علی خان علیہ الرحمہ کی”وادخلی فی جنتی وعبادی”۔ سے(١٢٩٧ھ)، مرشد گرامی قدر حضرت سید شاہ آل رسول مار ہروی علیہ الرحمہ کی ”رضی اللہ عنہ والمحبوب” سے (١٢٩٦ھ) حضرت سید حمزہ ماہر ہروی علیہ الرحمہ کی وادخلی فی جنتی سے(١١٩٨ھ) حضرت صدر الافاضل کے والد ماجد حضرت مولانا معین الدین نزہت مراد آبادی علیہما الرحمہ کی”رزق ربّک خیر” سے(١٣٢٩ھ)۔
ذیل میں سیدی اعلیٰ حضرت کا چونکا دینے والا کمال استخراج تاریخ ملاحظہ کریں جسے آپ نے اپنے مرشد برحق خاتم الاکابر حضرت سید آل رسول مار ہروی علیہ الرحمہ علیہ الرحمہ کے وصال پر ملال کے موقع پر مربع شکل میں اس طرح مادہ تاریخ وصال نکالا کہ اس مربع کی جتنی چالیں بنتی ہیں۔
سیدی اعلیٰ حضرت نے اپنی تاریخ ولادت بھی سورہ مجادلہ کی آیت مقدسہ (١٢٧٢ھ) سے مستخرج فرمائی۔ یعنی یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی۔ مذکورہ آیت مقدسہ کے ابتدائی حصے کی آیت کے محض ترجمے پر ہی غور کرلیا جائے تو سیدی اعلیٰ حضرت کی حیات طیبہ کے اہم مقاصد روز روشن کی طرح عیاں ہوجائیں گے۔ وہ آیت شریفہ ہے۔ یعنی تم نہ پائو گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ ا ور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں اگر یوں کہا جائے تو سو فیصد صحیح ہوگا کہ سید اعلیٰ حضرت کی قابل تقلید پوری زندگی ان ہی آیات بینات کی تفسیر مبین تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ کی پاکیزہ زندگی کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے اور آپ کے شب و روز اور صبح ومسا کے پرنور لمحات پر غوروخوض کیا جائے تو آپ کی دو انتہائی اہم خوبیاں جلوہ بار ہوتی نظر آتی ہیں۔ وہ خوبیاں یہ ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ اور اسکے حبیب مکرمۖ سے محبت اور ان کی بارگاہوں کے گستاخوں سے عداوت۔
٭٭٭