دوست کا حق!!!

0
20

رسولۖ اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہجرت کا سفر پڑھنا ہمیشہ سے مجھے بہت پسند رہا ہے۔ میں اسے جب بھی پڑھتی ہوں تو دوستی کے حوالے سے الگ طرح کی ”فیلنگز” محسوس ہوتی ہیں، ہمیشہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قربانیاں یاد کرکے میں سوچتی ہوں دوست ہو تو ایسا”کبھی نہ ساتھ چھوڑنے والا ”مگر آج اس واقعے کے جس حصے نے قلم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے وہ رسولۖکا طرز عمل ہے۔عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم پر کوئی دن ایسانہ گزرتا جس میں رسولۖہمارے گھر تشریف نہ لائیں ہوں، میں اسے پڑھ کر مسمرائز سی ہوگئی یعنی ہر روز، یہ ہوتا ہے دوستی نبھانا ۔ہم دوست بناتے ہیں،ہم جنت تک ان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں مگر ہم دنیا میں ان کا ساتھ نبھانا بھول جاتے ہیں، ہمیں دنوں گزر جاتے ہیں، ہم اپنے دوست کا حال نہیں پوچھ پاتے ،یہ نبھانا بھلا کیا ہوتا ہے؟جب زندگی کے دہانے پر موت آ کھڑی ہو تو ساتھ شانہ ملائے دوست کھڑا ہو، جب دوست مسکرائے تو دوست ساتھ مسکرانے والا ہو، جب دوست روئے تو ساتھ دوست رونے والا ہو، جب آزمائش سانس تنگ کرنے لگے تو دوست سے کہے”لا تحزن ان اللہ معنا”ہم اتنا مصروف ہو چکے ہیں کہ دوست کا حال پوچھنے کا وقت نہیں رہا اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمیں مصروفیت دوستی سے زیادہ پیاری ہے۔ہم دوست کو میسج نہیں کرتے کیونکہ ہم انتظار کرتے ہیں کہ وہ پہلے میسج کرے ،یہ کیسی دوستی ہوئی بھلا ؟ رسولۖ تو خود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے پھر ہم کہتے ہیں ہمیں سچے دوست نہیں ملتے۔ آپ جتنے بھی مصروف ہوں پھر بھی اس مصروفیت میں دوست کا حال دل سننے سے نہ رکیے یہی سچے دوست کی علامت ہے۔ایک شخص اپنے دوستوں کی محفل میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا، اچانک کسی اطلاع کے بغیر اس نے آنا چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک انتہائی سرد رات میں اس محفل کے ایک بزرگ نے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اس کے گھر گئے۔ وہاں انہوں نیاس شخص کو گھر میں تنہا، ایک آتشدان کے سامنے بیٹھا پایا، جہاں روشن آگ جل رہی تھی۔ ماحول کافی آرام دہ تھا۔ اس شخص نے مہمان کا استقبال کیا۔ دونوں خاموشی سے بیٹھ گئے، اور آتشدان کے آس پاس رقص کرتے شعلوں کو دیکھتے رہے۔کچھ دیر بعد، مہمان نے ایک لفظ کہے بغیر، جلتے انگاروں میں سے ایک کا انتخاب کیا جو سب سے زیادہ چمک رہا تھا، اس کو چمٹے کے ساتھ اٹھایا اور ایک طرف الگ رکھ دیا۔ میزبان خاموش تھا مگر ہر چیز پر دھیان دے رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں تنہا انگارے کا شعلہ بجھنے لگا، تھوڑی سی دیر میں جو کوئلہ پہلے روشن اور گرم تھا اب ایک کالے اور مردہ ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ سلام کے بعد سے بہت ہی کم الفاظ بولے گئے تھے۔ روانگی سے پہلے، مہمان نے بیکار کوئلہ اٹھایا اور اسے دوبارہ آگ کے بیچ رکھ دیا، فوری طور پر اس کے چاروں طرف جلتے ہوئے کوئلوں کی روشنی اور حرارت نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔ جب مہمان روانگی کے لئے دروازے پر پہنچا تو میزبان نے کہا کہ آپ کی آمد کا، اور آپ کے اس خوبصورت سبق کے لئے بہت شکریہ، میں جلد ہی آپ کی محفل میں واپس آئوں گا، اکثر محفل کیوں بجھ جاتی ہے؟بہت آسان کیونکہ محفل کا ہر رکن دوسروں سے آگ اور حرارت لیتا ہے۔ گروپ کے ارکان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ شعلے کا ایک حصہ ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کی آگ کو روشن کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ہمیں اپنے درمیان اتحاد کو قائم رکھنا چاہئے تاکہ محبت کی آگ واقعی مضبوط، موثر اور دیرپا ہو، اور ماحول آرام دہ رہے۔ گروپ بھی ایک کنبہ کی طرح ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کبھی کبھی ہم کچھ پیغامات سے ناخوش اور ناراض ہوتے ہیں، جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تعلق کو قائم رکھنا چاہئے، ہم یہاں ایک دوسرے کی خیریت سے آگاہ رہنے کے لئے، خیالات کا تبادلہ کرنے، یا محض یہ جاننے کے لئے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔دوسروں سے حرارت لیں اور اپنی حرارت سے دوسروں کو مستفید کریں ،اس شعلہ کو زندہ رکھیں اور اللہ کی بخشی گئی سب سے خوبصورت چیز، “دوستی” کو ہمیشہ قائم و دائم رکھیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here