اندھوں بہروں کی نگری میں یوں کون توجہ کرتا ہے !!!

0
23

قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بہت سے مقامات پر بیان ہوا ہے۔ فرعون کی قبطی حکومت کے خلاف، بنی اسرائیل کے حق میں کی گئی ان کی سیاسی جدوجہد سے ہمیں کئی طرح کے سبق ملتے ہیں۔ سور طہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صندوق کا فرعون کے محل میں بحفاظت پہنچنا اور ان کی پرورش کا انتظام شاہی انداز سے ہوجانا بھی بڑی تفصیل سے درج ہے۔ مولانا محمد یوسف اصلاحی اپنے دروس میں اس قصے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ انسانوں کو اپنے رب ذوالجلال سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ سور المومن میں درج، فرعون کے دربار میں ایک مردِ مومن کے تقریر سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ کعبے کو صنم خانے سے بھی پاسبان مل جاتے ہیں۔ ہمارے لئے یہاں بڑا سبق یہ ہے کہ بیشک اس وقت، فلسطین، شام، یمن، پاکستان، کشمیر اور بھارت کے علاوہ کئی دیگر علاقوں میں جو انسانیت کی تذلیل ہورہی ہے، وہ ایک عارضی عمل ہے اور جلد ہی ظلم کا یہ دور ختم ہو جائے گا۔
کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے حالانکہ وہ تمھارے رب کی طرف سے تمھارے سامنے کھلی نشانیاں لایا ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ضرور پڑے گا۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو جس انجام سے وہ تمھیں ڈرا رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تو تم پر نازل ہو کے رہے گا۔ یقین جانو کہ اللہ کسی حد سے بڑھے ہوئے جھوٹے آدمی کو فلاح کا راستہ نہیں دکھاتا۔ اے برادرانِ قوم!
آج تمھارے ہاتھ میں حکومت ہے، زمین پر تم غالب ہو، مگر کل اللہ کا عذاب ہم پر آ جائے تو کون ہماری مدد کرے گا؟ اے برادران قوم!
میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر وہ دن نہ آ جائے جو بڑی بڑی قوموں پر آ چکا ہے، اور وہی انجام تمھارا نہ ہو، جو قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور بعد کی قوموں کا ہوا۔ سور المومن؛ : تا ۔سانحہِ اسلام آباد کے بعد، پاکستانی عوام فراز، فیض، جالب کے علاوہ نئے نوجوان شعرا کی نظمیں، سنتے اور گاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر فراز کی نظم پیشہ ور قاتلو تو بہت ہی زیادہ مقبول عام ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس سیاسی عدم استحکام سے سرخ انقلاب کے حامی لوگ زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں مجھے جماعت اسلامی ہند کے رہنما اور انقلابی شاعر حفیظ میرٹھی کی زنجیریں یاد آتی ہیں۔
آباد رہیں گے ویرانے شاداب رہیں گی زنجیریں
جب تک دیوانے زندہ ہیں پھولیں گی پھلیں گی زنجیریں
آزادی کا دروازہ بھی خود ہی کھولیں گی زنجیریں
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی جب حد سے بڑھیں گی زنجیریں
اندھوں بہروں کی نگری میں یوں کون توجہ کرتا ہے
ماحول سنے گا دیکھے گا جس وقت بجیں گی زنجیریں
جو زنجیروں سے باہر ہیں آزاد انہیں بھی مت سمجھو
جب ہاتھ کٹیں گے ظالم کے اس وقت کٹیں گی زنجیریں
قرآن و حدیث میں ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کا بہت زیادہ ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح سبز انقلاب کے چاہنے والوں نے بھی اپنی نثر اور نظم میں، اس ضمن میں بہت کچھ تخلیق کیا ہے اور عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے مگر جنرل ضیا کے دور کے بعد، مقتدرہ کے خلاف سرخ سلام والوں کی نظمیں زیادہ مقبولِ عام ہیں حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کی نا انصافیوں کے خلاف، سب مل کر آواز اٹھائیں۔ضیائی دور کے ریفرنڈم پر جالب کی یہ نظم تو لوگ آج تک نہیں بھول سکے۔
شہر میں ہو کا عالم تھا، جن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ، باہر شور بہت کم تھا
کچھ با ریش سے چہرے تھے اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے، سچائی کا چہلم تھا
ڈجیٹل سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں، ادیب و شاعر تو کجا، عام آدمی کی زباں بندی بھی انتہائی مشکل امر ہے۔ آج کل جو ریاستیں، ان لاحاصل کوششوں میں مصروف ہیں، ان میں ہمارا آبائی وطن، پاکستان بھی شامل ہے۔ ان ریاستی حرکتوں کی وجہ سے، معیشت کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے خلاف، سخت سے سخت قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ، عوام کو بندوقوں سے ہی ڈرا کر کنٹرول کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا بھونڈا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ریاست ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ حضرت موسیٰ کے زمانے میں اس وقت کا فرعون بھی بالکل ایسے بھونڈے فیصلے ہی کیا کرتا تھا۔ مثلا ہر دوسرے سال، بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کردیا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود، اللہ تعالیٰ نے اپنے قادرِ مطلق ہونے کا احساس دلاتے ہوئے، حضرت موسیٰ کو بچا لیا اور ان کی شاہی محل میں پرورش کا انتظام کیا تاکہ وہ رموزِ مملکت چلانے کی تربیت بھی حاصل کر سکیں۔
احمد فراز کی مقبول عام نظم کے چند اشعار حاضرِ خدمت ہیں۔
کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اُٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہئیں
اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں
بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بہت سارے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ان کے اصل محرک، اکثر امن کے رکھوالے ہی ہوتے ہیں۔ میرٹھ کے قتلِ عام کے بعدحفیظ میرٹھی نے فرمایا تھا۔
پی کر چین اگر آیا بھی کتنی دیر کو آئے گا
نشہ اک آوارہ پنچھی چہکے گا اڑ جائے گا
منظر کی تکمیل نہ ہوگی تنہا مجھ سے فن کارو
دکھ کے گیت تو میں گا دوں گا آنسو کون بہائے گا
جاتے جاتے پوچھ رہا ہے امن کے رکھوالوں سے حفیظ
کیوں جی کیا ہم لوگوں سے میرٹھ خالی ہو جائے گا
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here