توشہ خانہ کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے اسلام آباد پولیس کا سابق وزیر اعظم عمران خان کی زمان پارک میں واقع رہائش گاہ آمد کے بعد سیاسی کشیدگی نئی بلندیوں کو چھونے لگی ہے ۔عمران خان کی گرفتاری کا معاملہ قانونی سے زیادہ سیاسی سوالات کا موضوع بنا ہے۔ پی ٹی آئی عمران خان کو اپنی ریڈ لائن قرار دیتی ہے ،پولیس پہنچنے کی خبر پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے عمران خان کی رہائش گاہ کا رخ کر لیا ۔کارکنوں کے ہجوم کی وجہ سے پولیس کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں مشکلات پیش آئیں ۔گزشتہ برس اکتوبر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ۔28 فروری کو ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے ۔ان پر الزام تھا کہ وہ بارہا عدالت کی طلبی کے باوجود پیش نہیں ہوئے ۔ اسلام آباد پولیس کے ترجمان وفاقی پولیس کی آمد کا مقصد واضح کرنے میں ناکام رہے ۔وہ کہتے رہے کہ پولیس عدالتی نوٹس وصول کرانے آئی ہے ۔دوسری طرف آئی جی اسلام آباد کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا کہ عمران خان کو گرفتار کرنا مقصد ہے اور کارکنوں کو گرفتاری میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے۔ ملک کو درپیش سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے بعد بد امنی کا راستہ کھولنا دانشمندی نہیں ۔عمران خان حالیہ دنوں لاہور ہائیکورٹ اور اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہو کر عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ عدالتوں میں پیش ہونے کو تیار ہیں ۔ان کی یہ بات قرین فہم ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ۔وزیر آباد میں ان پر قاتلانہ حملے کے بعد یہ خدشہ بے جا نہیں ۔قوم پہلے ہی بے نظیر بھٹو کو کھو چکی ،مزید نقصان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ توشہ خانہ کیس شروع سے ہی متنازع رہا ہے ۔ پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت جس طرح لیول پلئنگ فیلڈ کا تقاضا کرتے ہوئے عمران خان کی گرفتاری کو ضروری قرار دیتی آئی ہے اس نے تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں میں یہ مضبوط تاثر پیدا کیا ہے کہ توشہ خانہ کی آڑ میں تحریک انصاف کی قیادت کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ قانون کے مطابق جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ رعایتی قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مختلف ڈیکوریشن پیس، سوینیر، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔ وارنٹ گرفتاری کے مطابق عمران خان کو متعدد بار عدالت میں پیش کرنے کے نوٹس جاری کیے گئے تاہم وہ بار بار طلب کرنے کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔عدالتی نوٹس کے مطابق سات مارچ کو ہونے والی اس کیس میں آئندہ پیشی کو یقینی بنانے کے لیے عمران خان کی حاضری کو یقینی بنایا جائے۔ اتوار کی صبح عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کو جانے والے تمام راستے پولیس نے بند کر دیئے ۔ لاہور شہر میں سکیورٹی کی صورت حال غیر معمولیرہی۔ عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی ۔گرفتاری کے بعدحالات خراب کرنے کا پورا سامان موجود ہے۔ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ کے تحائف خلاف ضابطہ اپنے پاس رکھے اور پھر فروخت کر دئیے ۔دستاویز کے مطابق وہ گھڑی جس کے بارے میں یہ الزام ہے کہ اسے بیچ دیا گیا، وہ الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں درج نہیں کی گئی۔توشہ خانہ سے تحائف کی خلاف ضابطہ خریداری پہلی حکومتوں میں بھی ہوتی رہی ہے۔نیب ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انھوں نے قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیںلیکن نواز شریف لندن سے واپس نہیں آ رہے۔نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 ‘Li’ 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدیں۔ ریفرنس میں ان بینک اکاونٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگی کی ۔ریفرنس کے مطابق آصف زرداری یہ گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری سے انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں، تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور تیسرا خدشہ جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے ہو سکتا ہے ۔ذاتی،سیاسی اور قانونی لڑائی کو یکجا کرنے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے ،اس امر کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے ۔
٭٭٭