برصغیر میں برطانوی سامراجی اور استعماری طاقت نے اپنی عیش عشرت کو فروغ دینے کے لئے کرکٹ نامی کھیل متعارف کرایا جس میں ہندوستان کی اعلیٰ کلاس کے بچے بھنگی بن کر کوڑا کرکٹ کا کھیل کھیلنے لگے جس پر برطانوی حکمران لارڈز طبقہ سارا دن عیش وعشرت کرتے نظر آتے تھے جس کا سلسلہ پورا ایک ہفتہ تک جاری رہتا۔ یہی وہ وجوہات تھیں کہ جرمنی میں ہٹلر نے پابندی عائد کی تھی جو وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہ تھا جس کے کھلاڑی اس طوائف کی طرح سارا دن ناچتے کودتے رہتے تھے۔ چونکہ برطانوی نوآبادبائی طاقت نے ہندوستان میں اپنی طوالت کے لئے اپنے ججز ججزوں، ذاتی ملازموں، ہندوستانی غداروں کو بڑی بڑی جاگیروں اور عہدوں سے نواز رہا تھا تو اس وقت اعلیٰ کلاس کو کوڑا کرکٹ کا کھیل کھیلنے پر مجبور کیا تاکہ برطانوی طاقت اپنی حکمرانی بچا سکے جس کے بعد کوڑا کرکٹ کے کھلاڑی سفید وردیوں اور سینکڑوں میں نظر آنے لگے جس کے بارے ہندوستان کے عوام بالکل تاواقف تھے 30اپنے علاقائی اور روائتی کھیل کھیلا کرتے تھے۔
جن کے اپنے علاقائی کھیل کا دور دورہ تھا جو موسموں، تہواروں میلوں اور ٹھیلوں کے موقع پر کھیلے جاتے تھے جس کے بعد دنیا کے بڑے بڑے کھیل فٹبال اور ہاکی کے آئے جو بہتر پاپلور ہوئے جس میں ملک بھر میں فٹبال اور ہاکی کھیلی جا رہی تھی جس کی وجہ سے پاکستان نے ورلڈکپ اور اولمپک میں کپ جیت کر پوری دنیا میں نام روشن کیا جبکہ قبل ازیں رستم زماں، گاما پہلوان نے کشتی میں ہندوستان کا نام روشن کیا تھا، پورے برصغیر میں کشتی اور کبڈی ارو دوسرے علاقائی کھیل بہت مشہور تھے جن کے کھلاڑی بڑے صحت مند اور طاقتور نظر آتے تھے مگر جب سے کوڑا کرکٹ کا کھیل اپنایا گیا تو علاقائی کھیلوں کیساتھ ساتھ بین الاقوامی کھیل کشتی، پاکی اور فٹبال ناپید ہونے لگے وہ کرکٹ کھیل جس کو چالیس سال پہلے کوئی جانتا تک نہیں تھا وہ آج برصغیر میں چھا چکا ہے جو جوائوں خانوں کا کھیل تصور ہوتا ہے، جس کے کھیلنے والے ممالک کی تعداد اب تک ایک درجن سے زیادہ نہیں ہے جس کے کھلاڑی کرکٹ کی اجارہ داری کی وجہ سے سیلبرٹی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جن کے جسم اور طاقت نا ہونے کے برابر ہیں لیکن وہ کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ تاہم کرکٹ کو کوڑا میں نے اس لئے لکھا ہے کہ جس کو ماسوائے سابقہ غلاموں کے لئے دنیا میں کوئی نہیں کھیلتا ہے اگر یہ کھیل اتنا اچھا ہوتا تو برطانیہ کے اڑوس پڑوس ہم رنگ نسل اور مذہب پورا یورپ کھیلتا یا پھر روس، چین، ایشیائ، افریقہ، سائوتھ امریکہ، سینٹرل امریکہ اور نارتھ امریکہ کھیل رہا ہوتا۔ اس لئے یہ کوئی کھیل نہیں تھا جو برطانوی اعلیٰ کلاس کی عیش وعشرت کا کھیل تھا جس پر برطانوی لارڈز شراب نوشی اور عورت بازی کیا کرتے تھے۔ یہی وہ وجوہات تھیں کے امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد برطانوی تمام کھیلوں خیربادکہہ دیا کہ آج امریکہ میں کوئی برطانوی کھیل کھیل کر برطانوی استعماری طاقت کو یاد نہیں کیا جاتا ہے برعکس برصغیر میں برطانوی نظام حکومت اور کرکٹ کی تعریفیں کی جاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کو آزادی دی گئی تھی آزادی حاصل نہیں ہوئی تھی جس طرح دنیا میں نو آبادیات کے خلاف باقاعدہ جنگ آزادی لڑ کر آزادی حاصل کی گئی تھی۔ بہرحال برطانیہ آج بھی برصغیر پر اپنی زبان، کلچر اور کرکٹ کھیل کر بدولت قابض ہے جس کی وجہ سے ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش سری لنکا وغیرہ آج بھی برطانوی کامن ویلتھ کے ممبران ہیں جبکہ امریکہ کبھی بھی برطانیہ سے آزادی حاصل کرکے برطانوی کا اتحاد کا مبر نہیں بنا ہے تاکہ ان کی آزادی پر ضرب نہ آپائے جس کی برصغیر کے حکمران اپنائے ہوئے کہ جس نے انگریزی، کھیل کود اور تمام برطانوی روایات کے ذریعے اپنی اپنی عوام کو غلام بنا رکھا ہے لہٰذا جب تک برطانوی استعماری کلچر، زبان، روایات کو ترک نہیں کیا جائے گا تب تک یہ حصہ آزاد نہیں ہو پائے گا۔
٭٭٭٭٭