مولانا ابوکلام آزاد نے تقسیم ہند کے موقع پر فرمایا تھا کہ پاکستان نفرت کی بنا پر وجود میںآیاہے اور نفرت کی بنا پر ختم ہوجائے گا جو بالکل سچا ثابت ہوا ہے کہ1971میں ملک نفرتوں اور حقارتوں کی بنا پر دولخت ہوا آج پھر پاکستان کے عوام، عدلیہ اور دوسرے تمام ادارے تقسیم ہوچکے ہیں۔ جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ جن پر پاکستان کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ہے۔ جو بحران در بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جس کا خالق صرف اور صرف عمران خان ہیں جن کی منفی سوچ اور سیاست ملک کی تباہی کا باعث بنی ہے۔ جس کے خوف سے پاکستان کا سرمایہ کار پیشہ ور اور دوسرا طبقہ ترک وطن پر مجبور ہوچکا ہے۔ جن کو اب ملک میں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ تاہم سیاسی، معاشی بحران کے دوران عدلیہ کا یہی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ کہ جس میں چیف جسٹس بندیال نے عدلیہ کو اپنی گھر کی لونڈیا بنا لیا ہے۔ جو ججوں کے ساتھ تعصبانہ رویہ اختیار کرچکے ہیں جس میں عدلیہ کے اندر نے شدید بے چینی اور کشیدگی پیدا ہوچکی ہے کہ آج کرپٹ اور اقربا پرور ججوں اعجازالحسن اور مظاہر نقوی کی بجائے ایماندار اور قابل ترین ججوں قاضی عیٰسی، طارق مسعود، جمال مندو خیل، یحٰیی آفریدی، الحرمن السد، منصور علی شاہ دوسرے ججوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ عدلیہ سے مستعفی ہو جائیںجس کے لیے چیف جسٹس اپنی من پسند بینچ بنا اور توڑ رہا ہے۔ جو پاکستان کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوگا جس سے1997ء والا عدالتی بحران پیدا ہوجائیگا۔ جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہر نقوی ہر ملک کے سیاستدانوں نے وکیلوں، وکلاء باروں نے الزامات کی لگائے کہ دونوں جج صاحب ن غیر جانبدار نہیں ہیں جبکہ جسٹس نقوی پر کرپشن اور سیاستدانوں کے ساتھ روایہ کے آڈیوز عوام میں آچکے ہیں۔ لہذا ان دونوں ججوں کو عدالتی پہنچ سے ہٹا دیا جائے۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ازخود نوٹس پر اعتراض کیا کہ یہ نوٹس غیر قانونی ہے کہ جب دو عدالتوں ہائی کورٹ لاہور اور پشاور میں ہی مقدمہ بطور اپیل زیر سماعت ہے تو ازخود نوٹس کیوں لیا گیا ہے جو ماتحت عدالتی سماعت میں مداخلت کے مترادف ہے۔ دوسرے ساتھی جج اطہر من اللہ نے کہا کہ دونوں صوبوں کی پارلیمنٹوں کی تحلیل پر پتہ لگایا جائے کہ دونوں اسمبلیوں کو کیوں لیے توڑا گیا ہے جس کی دو اور ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰی آفریدی نے بھی حمایت کی جس کو بلڈوز کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اپنے ٹولے کے دو جج صاحبان اعجاز الحسن اور تقوی کی رضا کارانہ بینچ سے ہٹنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے دوسرے دو اور جج صاحبان جسٹس آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کوبھی بینچ سے ہٹا دیا جو عدالتی تاریخ کا پہلا سیاہ واقعہ ہے کہ چیف جسٹس دو ججوں کو ان کی مرضی کے خلاف پہنچ سے ہٹا دے حالانکہ سپریم کورٹ میں تمام جج صاحبان اختیارات کے لحاظ سے برابر ہوتے ہیں جب کوئی جج بینچ کا حصہ بن جائے تو اسے ہٹانا مشکل ہوتا ہے بشرطیکہ وہ ر ضا کارانہ طور پر ہٹ جائے پھر جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس نقوی کی طرح اقربا پروری اور کرپشن میں ملوث نہ ہو چونکہ موجودہ چیف جسٹس کا پانچ کا ٹولہ ازسر نو آئین تشکیل دے رہا ہے جنہوں نے پہلے63-Aکے آرٹیکل کی تشریح کرتے ہوئے پارلیمنٹرین کو نہ صرف ڈی سیٹ کیا بلکہ ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا جو آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ آئین سپریم ہے جس کے ماتحت تمام ادارے ہیں جس میں ردوبدل صرف اور صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے مگر موجود عدلیہ آئین کو تبدیل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ بہرکیف پاکستان میں بحرانوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ یہاں سیاسی، معاشی، سماجی اور عدالتیوں بحران درپیش ہیں ایک طرف نفرت کی سیاست عروج پر ہے جس کا سرغنہ عمران خان سرفہرست میں جو اپنے پروکاروں کو صرف اور صرف نفرت کا درس دے رہا ہے کہ میری خاطر اپنے والدین بہن بھائی اور رشتے داروں کی پرواہ مت کرو۔ میری خاطر اپنے خونی رشتے توڑ ڈالو۔ جس طرح کراچی میں ہوچکا ہے کہ اہلیان کراچی نفرتوں اور حقارتوں کی بنا پر اپنے قریبی رشتے بھول گئے تھے۔ معاشی بحران میں پاکستان غیر مستحکم ہونے کے باعث دیوالیہ ہونے جارہا ہے جس کا تب پتہ چلے گا جب تیل کی نایابی پر گاڑیاں کھڑی ہوجائیں گی لوگ کاروں، رکشوں، ٹیکسیوں کی بجائے گدھا گاڑیوں اور سائیکلوں پر سفر کریں گے۔ مزید برآں جب تیل اور گیس درآمد کرنے والے ممالک تیل اور گیس نہیں چلیں گے۔ تو تیل کی نایابی کی وجہ سے بجلی اور چولہے بند ہوجائیں گے۔جو سب کچھ پیسوں پر ملتا ہے لہذا جب کوئی ملک دیوالیہ ہوجائے تو سب کچھ خریدنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ عدالتی بحران سے ملک میں لاقانونیت پیدا ہوگی جس میں جج، وکلاء اور سائل آپس میں الجھ پڑیں گے۔ جس سے سماجی بحران پیدا ہوگا جب پورا معاشرہ تباہی کی طرف چل پڑے گا۔ جب کوئی قوم سماجی طور پر تباہ ہوتی ہے تو وہ وحشی قوم کہلاتی ہے جس کے مناظر پاکستان میں بہت جلد منظر عام پر آرہے ہیں جس پر پوری دنیا پریشان ہے مگر پاکستان میں مصلحتوں اور مفاہمتوں سے کام لیا جارہا ہے۔ ملک کے عقلمندوں اور دانشوروں نے اس شترمرغ کو لے اڑتا ہے ابھی بھی وقت ہے کے پاکستان میں سیاسی، معاشی، سماجی نظام کو درست کرلو ورنہ نہ جانے کیا ہوگا۔
٭٭٭٭