بائیڈن کی پالیسی سے عام امریکی قلاش!!!

0
111
حیدر علی
حیدر علی

صدر بائیڈن کا غصہ امریکی عوام سے اِس بات پر ہے کہ وہ اُنہیں پسند نہیں کرتے ہیں،اِس لئے وہ اُنہیں سزا ئیں مختلف النواع اقسام سے دے رہے ہیں ، اُن کی سزا دینے کا طریقہ اتنا ظالمانہ ہوتا ہے کہ ہلاکو اور چنگیز خان بھی مات پڑجاتا ہے، مثلا”یہ کہ جب صبح صبح امریکی صارفین گیس اسٹیشن کا رخ کرتے ہیں تو اُنکا بلڈ پریشراچانک 140 سے 250 پر پہنچ جاتا ہے، کیونکہ گیس کی قیمت گذشتہ کل کے مقابلے میںنصف ڈالر بڑھ چکی ہوتی ہے، لوگ غصے میں وائٹ ہاؤس کال کر کے چیختے ہیں کہ ” یہ کیا حماقت شروع کردی ہے ، تم امریکی صدر ہو یا پٹواری. جب سے تمہارا منحوس سایہ وائٹ ہاؤس پر پڑا ہے ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہی جارہی ہے، کیا تمہیں پتا ہے کہ تمہاری پسندیدگی کی شرح پھلجھڑی کی طرح ہوا میں اُڑ گئی ہے، اگر حالات یہی رہے تو ایک ماہ بعد 39 سے مائنس 50 ہوجائیگی. خدا کیلئے جاکر پھر ڈلیوری کا کام شروع کردو. امریکا کی صدارت کرنا کوئی آسان کام نہیں،’ صدر بائیڈن اپنے سیکرٹری کو یہ اشارہ دیتے ہیں کہ کہہ دو قیمت کم ہو جائیگی جب امریکا کی تمام گاڑیاں پٹرول یا ڈیزل کی بجائے پانی اور کوئلے سے چلا کرینگی، جیسا کہ ریل کی انجن پہلے چلا کرتیں تھیں، اور شوں شوں کی سیٹیاں بجایا کرتیں تھیں اور ہاں صدر بائیڈن کو اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کی کوئی پرواہ نہیں، ویسے بھی وہ آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینگے، چاہے حلف وفاراری کیلئے اسٹریچر پر ہی کیوں نہ تشریف لائیں، ہم امریکی عوام کی رائے کا پورا پورا احترام کرتے ہیں، ہم ڈیموکریٹک پارٹی کے علمبردار ہیں،ہم پھر چکن بریانی بنانا شروع کردینگے اور خود بھی کھائینگے اور دوستوں کو بھی کھلائینگے جو امریکی چکن بریانی نہیں کھاتے اُن کے لئے ہاٹ ڈاگ حاضر ہوگا، اور ساتھ ہی ساتھ پپسی بھی.” صرف یہی نہیں کبھی کبھی تو وعدہ وعید کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے مثلا”پہلی جون سے گیس کی قیمت 16 سینٹ کم ہو جانی تھی جو اسٹیٹ ٹیکس کے ختم ہونے کی وجہ کر ہوتی تاہم قیمت میں کمی ہونے کی بجائے 25 سینٹ کا اضافہ ہوگیا جواز یہ پیش کیا گیا کہ یورپ نے روس سے تیل خریدنے سے انکار کردیا ہے ، اِسلئے گیس کی سپلائی میں خاطر خواہ کمی ہوگئی ہے۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ پاکستانی نژاد امریکن نہ ہی ہوشربامہنگائی اور نہ ہی شرح جرائم میں اضافے کو خاطر خواہ میں لا رہے ہیں، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہی حضرات صحیح معنوں میں دانشمند ہیںجو حالات کے مزید دگرگوں ہونے کے قبل اپنی جائداد و کاربار فروخت کرکے دوبارہ پاکستان میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں، کم ازکم ایک خاندان کے کچھ افراد کا پاکستان میں رہنا لازمی ہے۔ گذشتہ سالوں میں امریکا بھر میں نسلی فسادات، آئے دِن کاروبار کا لوٹ لیا جانا، گیس کی قیمت کا آسمان سے باتیں کرنے کے علاوہ روزمرہ کی چیزوں کا انتہائی مہنگا ہو جانا یقینا لوگوں کو ہراساں کردیا ہے۔اِن ہی حالات کے بارے میں جب میں نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ کیا اُنہیں امریکا میں بدلتے ہوئے حالات کا کوئی ادراک ہے یا وہ یونہی دِن رات مسلم لیگ (ن) اور نواز شرف کی باتوں میں مگن ہیں۔ پاکستان کی قیادت کو یہ بھی علم نہیں کہ امریکا کی ہوا نکل چکی ہے ، اور بس وقت کا انتظار ہے، ہمارے دوست نے جواب دیا کہ وہ اﷲتعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں اور جب انسان کا دانہ پانی اُٹھ جاتا ہے تو وہ خود بخود ایک جگہ سے دوسری جگہ کوچ کرجاتاہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ میرے دوست ایک انتہائی ایڈیٹ انسان ہیں، لوگوں کا وقت و حالات کے مدنظرنقل مکانی کرنا عقل و دانش کا تقاضا ہوتا ہے۔

صدر بائیڈن کوانکار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی. اُنہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ گیس کی قیمت میں فی الحال کمی ہونے کا کوئی امکان نہیں ، پانچ سے دس سال لگ سکتے ہیں، جیسے امریکا میں
ہر کام کی پایہ ء تکمیلی کیلئے 30 سے 50 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے. کوئینز بروکلین ایکسپریس وے گذشتہ
40 سال سے زیر تعمیر ہے ، ہوسکتا ہے ایک صدی میں مکمل ہو جائے۔
اُنہوں نے بے بی فارمولا( بچوں کے دودھ) کیلئے بھی یہی رویہ اختیار کیا ہے، جب ایک خاتون نے اُن سے اِسکے نا دستیابی کے بارے میں استفسار کیا تو اُنہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”ممی اتنی جلدی کیا ہے ، بکری کے دودھ سے نمٹا دیا کرو ، آخر ہم بکری کا دودھ پی ہی کر جوان ہوئے ہیں، سارے افغانستان میں بچوں کو بکری کا دودھ ہی پلایا جاتا ہے اور وہاں کے بچے بھی طاقتور ہوتے ہیں ، طالبان ہوتے ہیں،” ممی نے پھر کہا کہ بکری کا دودھ بھی دستیاب نہیں؟ تو جناب صدر بائیڈن نے فرمایا کہ ”میں بکری کے فارم والوں سے پوچھونگا، ملک میں وافر مقدار میں بکری کا دودھ، گائے کا دودھ، بھیڑ کا دودھ اور گدھے کا دودھ دستیاب ہونا چاہیے۔”
صدر بائیڈن نے گذشتہ بدھ کے دِن اِنفلیشن ختم کرنے کے بارے میں اپنی کابینہ کا ایک اجلاس بلایا تھا، اُنہوں نے اِس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وزارت خزانہ نے اِس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکی صارفین آئندہ پانچ سال تک اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اضافے کو باآسانی برداشت کر سکتے ہیں۔ اِسلئے اُنہیں بجائے انفلیشن ختم کرنے پر وقت ضائع کرنے کے فاکس چینل والوں کو مزا چکھانے پر غور کرنا چاہئے کیوں نہیں وہ پاکستان کی طرح یہاں بھی بعض چینلز کو بند کردیں، اور اُنکے اینکر پرسنز کو ملک دشمن قرار دے کر گوانتا نامو بے تبدیلی آب و ہوا کیلئے بھیج دیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here