حیدر علی
سالوں سال سے میں یہ خوش خبری سنتا چلا آرہا ہوں کہ آئندہ سال جب رمضان ا لمبارک کا نزول ہوگا اُس میں ہم لوگ شام کے چھ بجے افطار کر ینگے اور سحری کا بھی کیا کہناوہ تو صبح کے ناشتے کی طرح سات بجے کرنے کی سہولت ہوگی، بس میں اِسے یقین جان کر آئندہ سال کے رمضان کا انتظار کرنا شروع کردیتا ہوں لیکن جب ماہ صیام نازل ہوتا ہے تو پھر وہی افطار کا وقت رات کے آٹھ بجے کے قریب اور سحری صبح ساڑھے چار بجے تک کرنے کی پابندی عائد ہوتی ہے، مجھے تو یہاں کے رمضان میں بھی سازشوں کا ایک گمبھیر جال بچھا نظر آتا ہے، افطار کے وقت بھی وہی رات کی تاریکی چھائی ہوتی ہے اور سحری میں گہری شب ظلمات کا سماں ہوتا ہے، آپ باہر نکلیں تو پولیس والے پکڑ کر اندر کرسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب اِس سال ہماری مسجد کی جانب سے ماہ رمضان کے شروع ہونے کی اطلاع بذریعہ ٹیکسٹ میسج کے مجھے دی گئی تو میں فورا”اُنہیں شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ درخواست بھی کردی کہ برائے مہربانی مجھے رمضان کا ٹائم ٹیبل بھی بذریعہ ٹیکسٹ بھیج دیں، چند منٹ بعد ہی ٹائم ٹیبل بھی مجھے مل گیا، میں مسجد کی تیز رفتار اور انتہائی خوش اسلوب سروس سے بہت زیادہ متاثر ہوگیا۔ مجھے تو ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کہ یہ کوئی محلے کی مسجد نہیں بلکہ ایمازون یا مائیکرو سافٹ کارپوریشن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسجد میں پڑے زکوة فنڈ، مسجد فنڈ ، خیرات فنڈ، صدقہ فنڈ ، اسکول فنڈ اور پھر وغیرہ وغیرہ فنڈ کے بکس میرے تصورات کی پرچھائیوں میں گھومنے لگے، میں سمجھ گیا کہ وہ سب کے سب میرے ذوق خدائی کا انتظار کر رہے ہیں۔ بہرکیف میں مسجد سے آئے ہوے ٹائم ٹیبل کو دوسرے ٹائم ٹیبلز جسے سُپر مارکیٹ ، حلال میٹ اور شان مصالحہ بیچنے والوں نے میری بیگم کے حوالے کردیا تھا سے موازنہ کرنا شروع کردیا، میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہیں رہی جب مجھے معلوم ہوا کہ قبیلے قبیلے کے افطار کھولنے کا ٹائم جُدا تھا ، کسی کا آگے تھا کسی کا پیچھے تھا بلکہ اتوار کی شام افطار کھولنے کا وقت جو شام کے 7 بجکر 50 منٹ درج تھا اور ہم لوگ پکوڑے ، سموسہ ، دہی بھلا اور گھونگنی کے سامنے بیٹھے اُس کا انتظار کر رہے تھے لیکن ٹھیک اُس سے تین منٹ قبل ہمارے بیٹے کے سیل فون سے اذان کی آواز بلند ہوگئی۔ بحیثیت بزرگ مجھے یہ فیصلہ دینے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ جو پہلے آتا ہے وہی ٹھیک ہوتا ہے تاہم میں نے سوچا کہ اِس ضمن میں مسجد کی انتظامیہ سے استفسار کرنا ضروری ہے، میں نے اِسے جہاد فی سبیل اﷲسمجھتے ہوے فورا”اُن ہی صاحب کو ایک ٹیکسٹ روانہ کردیا ، جنہوں نے مجھے ماہ رمضان کا ٹائم ٹیبل ٹیکسٹ کیا تھا، میں نے اُنہیں عرض کیا کہ” برادر محترم! آپ نے جو مجھے ماہ رمضان کا ٹائم ٹیبل روانہ کیا ہے، انتہائی غور و خوض اور دوسرے ذرائع سے حاصل کئے جانے والے ٹائم ٹیبل سے موازنہ کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اِس میں شدید تکنیکی غلطیاں موجود ہیں، مثلا”اِس میں افطار کھولنے کا وقت مبلغ تین منٹ زائد سے ہے، شاید آپ کو علم نہیں کہ اِس ترقی یافتہ دور میں تین منٹ کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، اگر آپ ٹیسلا کے راکٹ سے سفر کریں تو تین منٹ میں نیویارک سے میامی پہنچ سکتے ہیں، چلئے مزید چند منٹ اِس میں متفرقات کاروائی کیلئے اضافہ کرلیں،علاوہ ازیں تین منٹ تک روزہ داروں کو مزید انتظار کرنا کتنا کٹھن مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آسمان گِر پڑا ہو، تین منٹ میں تو بہت سارے بھوکے روزہ دار سارا افطار صفا چٹ کرجاتے ہیں، تین منٹ کا وقت تو امریکا کے صدر کو صدارتی بحث میں تقریر کرنے کیلئے دیا جاتا ہے اور وہ اُسی وقت میں اتنا زیادہ بکواس کر دیتا ہے کہ قوم دہل جاتی ہے۔تین منٹ تو مجنوں حضرات لیلیٰ سے مانگتے ہیں تاکہ وہ اُسے اپنے دِل کی بات کہہ سکیںلیکن لیلیٰ اُسے کم کر کے صرف ایک منٹ دینے پر راضی ہوتی ہے“
بہر نوع موصوف کا جواب مجھے چند منٹ بعد ہی موصول ہوگیا، اُنہوں نے فرمایا کہ اُن کی مسجد کی انتظامیہ ماہ رمضان کا ٹائم ٹیبل دوسری مسجد سے شائع ہونے والے ٹائم ٹیبل کی کاپی کر کے اپنے ممبران کو تقسیم کر دیتی ہے لیکن اگر آپ تین منٹ قبل یا تین منٹ بعد افطار کر لیں تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہوگی۔چلئے مسجد والے بہت سارا اچھا کام کرتے ہیں ، اگر ایک کام میں غلطی ہو جاتی ہے تو اُسے نظر انداز کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ” ارے تین منٹ دیر سے افطار کھلوادیا، ارے غضب ہوگیا “کہہ کر چیخنا کوئی ضروری نہیں۔
مسجد والوں سے ماہ صیام کے ٹائم ٹیبل پر گفت وشنید چل ہی رہی تھی کہ میری بیگم نے ایک فرمان جاری کردیا کہ فوری طور پر وہ ہماری تواضع افطار میں صرف فروٹ چاٹ اور گھونگنی سے کرینگی کیونکہ پکوڑے اور سموسے کھانے سے وزن میں تیزی سے اضافے کا احتمال ہوتا ہے۔ مجھے میری بیگم کی یہ بات قطعی پسند نہ آئی ، میں نے اُنہیں کہا کہ رمضان تو ہوتا ہی ہے پکوڑے ، سموسے اور دہی بھلا کھانے کیلئے ، اگر اِن سارے لوازمات کو اِس سے خارج کر دیا جائے تو پھر رمضان کا مزا ہی کیا؟اور پھر سموسے اور پکوڑے کے بغیر پیٹ خالی ہی خالی نظر آئیگا، اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا میں ٹی وی پر نہیں دیکھتا ہوں کہ بہت سارے لوگ جنگل میں مہینوں مہینوں بغیر کھائے پیئے زندہ رہ جاتے ہیں، میں نے جواب دیا کہ میں تھوڑے ہی نا ٹارزن یا بن مانس ہوں۔