حسن اخلاق!!!

0
22

تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار و خطا بیں وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
اللہ کریم نے انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے کم و بیش سوالاکھ انبیا ورسل مبوث فرمائے ہر نبی کو ظاہری و باطنی کمالات سے متصف فرمایا اور پھر سب سے آخر پر تشریف لانے والی ہستی ہمارے آقا و مولی محمد مصطفی ۖ کی ذات والا صفات ہے اور وہ تمام کمالات ظاہر و باطنی جو پہلے انبیا کو جزوی اور انفرادی طور پر ملے تھے ان تمام اوصاف و کمالات کو اللہ کریم نے وجود محمد میں جمع فرما دیا آپ ۖ کے بے مثل اوصاف میں ایک وصف اعلی اخلاق تھے جس کو قرآن کریم نے بڑے دلنشیں انداز میں بیان فرمایا سور قلم کی آیت نمبر چار میں فرمایا اترجمہ اے نبی ۖ آپ ۖ عظیم الشان خلق پر فائز ہیں۔ سیرت اور احادیث کی کتابیں آپ ۖ کے بے مثل اخلاق کی ایمان افروز داستانوں سے بھری ہوئی ہیں یہاں میں آپ کی خدمت میں کچھ خاص پہلو رکھنا چاہتا ہوں سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اخلاق کی تعریف کیا ہے یہاں یہ بات بھی پیش نظر ہے ہمارے ہاں اس لفظ کو الف کے زیر کیساتھ پڑھا جاتا ہے جو بالکل غلط ہے اس کی correct pernouncitionالف کے زبر کیسا تھ ہے تو ہم بات کر رہے تھے اخلاق کی تعریف پر تو یادرکھیے کسی لالچ کی غرض سے زباں سے میٹھے بول ادا کرنا اخلاق نہیں ہے۔ اپنا تجارتی سامان بیچنے کی غرض سے تکلفا نرم لہجہ رکھنا اور چکنی چپڑی باتیں کرنا اخلاق نہیں ہے بلکہ جس طرح آنکھ بے تکلف دیکھتی ہے کان بے تکلف سنتے ہیں زبان بے تکلف چکھتی ہے ناک بے تکلف سونگھتا ہے اخلاق یہ ہے کہ بغیر کسی تکلف اور غرض کے آپ کے بول میٹھے ہوں آپ کا لہجہ نرم ہے آپ کے وجود سے لوگوں کو خیر ملے لیکن جب امیر اور غریب کیساتھ ایک لہجے میں بات نہ ہو جب کمزور اور طاقتور کے سامنے رویہ مختلف ہو تو جان لیں ابھی آپ کا دامن اخلاق کی دولت سے خالی ہے۔ آج امت جہاں زوال و انحطاط عمومی کے دور سے گزر رہی ہے وہاں ہماری اخلاقی حالت پر مرثیہ لکھنے کو دل چاہتا ہے جس امت کے پیغمبر نے اپنی بعثت کریمہ کا ایک مقصد ہی اخلاق کی تکمیل بتایا ہو وہ امت آج اخلاق سے عاری ہو چکی ہے چھوٹے بڑے کا فرق ختم ہو گیاصبر و برداشت کی جگہ حسد و فساد آ گیا حمل و ضبط کی جگہ ظلم و قہر آ گیا اور ہماری موجودہ اخلاقی صور تحال یہ نقشہ پیش کر رہی ہے انسان کو انسان ڈس رہا ہے سانپ دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ آئیے اس بارگاہ میں چلیں جہاں ظاہر و باطن سنوارے جاتے ہیں آئے اس مکتب کی راہ لیں جو فیضان نظر سے آداب فرزندی سکھاتے ہیں۔ جی ہاں اگر پسماندگی کو ارتقا میں بدلنا ہے تو عہد نبی کی سمت لوٹنا ہو گا کیا ہمیں اپنا آپ بدلنے کیلئے آنحضور ۖ کے یہ ارشادات کافی نہیں ہیں۔ آقائے دو جہاں ۖ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن بندہ مومن کے میزان میں حسن خلق سے زیادہ وزنی اور کوئی چیز نہیں ہوگی اسی طرح نبی اکرم ۖ نے فرمایا روز قیامت تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہونگے جن کے اخلاق اچھے ہونگے اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور بیہودہ باتیں کرنے والے ہونگے اگر ہم خود کو بدلے بغیر معاشرہ بدلنے کا خواب دیکھتے رہے تو یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا آئیے آج سے یہ عزم کریں ہماری زبان ہمارے عمل ہمارے قول اور فعل سے لوگوں کو خیر ہی خیر ملے گی اللہ کریم اپنے محبوب کریم ۖ کے طفیل ہمیں بھی اخلاق حسنہ کی نعمت سے سرفراز فرمائے ۔ آمین!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here