ڈاکٹر شفیع بیزار ایک انسان تھے، اور ہمیشہ اپنے آپ کو اِسی حیثیت سے پیش کیا، نہ ہی اِس کے حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی اور نے ہی اِس میں کمی ہونے کا کوئی شائبہ اُن میں موجود تھا۔ میری اُن سے پہلی ملاقات میری ہی خواہش پر اُن سے ہوئی۔ واضح رہے کہ اُس وقت مجھے اُن کے پارک ایونیوکے لنگر خانہ اور مسافر خانہ ( ریسٹورنٹ) کے بارے میں ذرہ برابر بھی علم نہ تھا۔ اگر مجھے علم ہوتا تو میں اُن سے حارلم کے دواخانہ میں ملنے کے بجائے اُس ریسٹورنٹ میں ہی ملنے کو ترجیح دیتا۔ رات کا ڈنر ایک اعلی پارک ایونیو کے ریسٹورنٹ میں اور وہ بھی مفت ، بعد ازاں وہاں کی کھیر کا ذائقہ مجھے دیوانہ کردیا تھا۔ بہرکیف ہماری پہلی ملاقات اُن سے سیاسی تھی۔ ڈاکٹر شفیع بیزار کا چینل وِیژن آف ایشیانیو یارک شہر میں ایک دھوم مچایا ہوا تھا ۔ یہ ایک ویسا ہی چینل تھا جیسے پاکستان کی آزادی سے قبل مسلم لیگ کا کوئی اخبار ہو یا علامہ اقبال کی کوئی نظم۔ میری پیپلز پارٹی سے وابستگی اُس دوران ایک اٹوٹ انگ تھی ۔ میرے سیاسی دوستوں نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ کیوں نہ میں ڈاکٹر شفیع بیزار سے ملوں اور اُنہیں بھی پیپلز پارٹی میں لانے کوشش کروں۔ حارلم کے خوفناک علاقے میں جاکر ڈاکٹر شفیع بیزار سے ملنے کی میری یہی وجہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جس گرمجوشی سے میرا استقبال کیا اُسکے لئے میں آج بھی اُن کا تہہ دِل سے شکر گذار ہوں۔ بلکہ بعض تو اُنکے مریض ہماری دوران گفتگو کراہ بھی رہے تھے۔ بہرکیف یہ تو ایک اسپتال کی شان ہے۔ لوگ ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں جانے کے بجائے اُن کے دوا خانہ میں چلے آتے تھے اور دم توڑ دیتے تھے۔ میں نے ڈاکٹر شفیع بیزار کا نام پہلے بھی سنا تھا ، مطلب یہ کہ ایک دفعہ ایک کتّے نے مجھ پر حملہ کردیا تھا، اور مجھے ایسے ڈاکٹر کی تلاش تھی جو ایک سنسنی خیز رپورٹ لکھ کر دے تاکہ جج بھی اُسے سُن کر رو پڑے۔ لیکن ڈاکٹر بیزار کی کلینک میں دال نہ گل سکی اور میں وہاں سے مزید دس میل دور یانکرز میں ایک سیاہ فام ڈاکٹر کو تلاش کرلیا، جو اِس طرح کی رپورٹ لکھنے ہی کیلئے اپنا کلینک کھولا تھا۔
اُن سے پہلی ملاقات کے تذکرے میں اگر میں ڈاکٹر صاحب کی مزید ذرہ نوازی کا ذکر نہ کروں تو یہ بڑی بے انصافی ہوگی۔ ڈاکٹر شفیع بیزار نے بڑی بیباکی سے مجھ سے پوچھا تھا کہ میری معاشی حالت پتلی تو نہیں یا مجھے کسی مالی امداد کی کوئی ضرورت تو نہیں؟ میں نے مسکراتے ہوے اُن کا شکریہ ادا کیا تھا۔ بعد کے حالات نے یہ پردہ چاک کردیا کہ کیوں لوگوں کا جم غفیر اُن کے گرد منڈلاتا رہتا تھا۔
شرافت، لطافت اور سخاوت کے پیکر ڈاکٹر شفیع بیزار سے میری سیر حاصل گفتگو ہوئی اور اُنہوں نے مجھے یہ عندیہ ظاہر کیا کہ اُنہیں پیپلز پارٹی سے کوئی رقابت نہیںاور اُنکی جدوجہد کا مقصد صرف یہ ہے کہ مہاجروں کو اُنکے جائز حقو ق ملنے چاہیے۔ میں نے اُن کی تائید کی۔ اُنہوں نے ازراہ کرم مجھے مہاجروں کیخلاف ہونیوالے ظلم و ستم اور بدانصافی پر نہ صرف ایک اداریہ لکھنے کی گذارش کی بلکہ اُن کا اصرار تھا کہ اُسے رٹ کر میں اُنکے ٹی وی کے چینل پر پڑھوں۔ میں نے اُن کی خواہش کی انتہائی خوش اسلوبی سے تکمیلی کی۔ میں نے سوچا تھا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے ہر ہفتے اداریہ پڑھنے کیلئے کہیں گے، لیکن ایسی کوئی بات وجود میں نہ آئی۔ اداریہ پڑھنے کا سلسلہ میرے بعد ہی مکمل طور پر ختم ہوگیا تھا، کیونکہ اِسے سُن کر بعض لوگوں کی نیندیں حرام ہوجاتی تھیںاور وہ رات بھر ڈراؤنا خواب دیکھا کرتے تھے۔ اُن کے ٹی وی کے ایک گھنٹے کے پروگرام کیلئے کم از کم دو منجھے ہوئے صحافی کام کیا کرتے تھے، ایک نیوز کاسٹر تھی اور ایک انتہائی تجربہ کار کیمرہ مین ہوا کرتا تھا۔ سارے لوگ انتہائی لگن اور محنت سے کام کیا کرتے تھے۔ پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد ڈاکٹر صاحب اُن سبھوں کو لے کر اپنے ریسٹورنٹ پارک ایونیو میں واقع چہل قدمی کرتے ہوئے لے کر آیا کرتے تھے، جہاں اُن کی تواضع لذیذ کھانوں، کھیر اور چائے سے ہوا کرتی تھی۔ بلاشبہ میں بھی متعدد مرتبہ اُس محفل میں شامل ہوا کرتا تھا۔ گفتگو انتہائی دانشورانہ اور اعلی ظرفی کے دائرے میں ہوا کرتی تھی۔
ڈاکٹر شفیع بیزار کی شخصیت کا آپ جس زاوئیے سے تجزیہ کریں لیکن ایک حقیقت جو ہمیشہ افشا رہیگی کہ وہ شاعر و ادیب اور دانشوروں کی دِل سے تعظیم کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کے مایہ ناز دانشور حکیم محمد سعید کو متعدد مرتبہ پاکستان لیگ آف امریکا کے پلیٹ فارم سے خطاب کرنے کا موقع فراہم کیاتھا۔ اُسی پلیٹ فارم سے پاکستان کے سائنسدان، یونیورسٹی کے ڈین اور پاکستان کے سیاستدان بھی وقتا” فوقتا”اپنی آراء کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر شفیع بیزار کا ایک اور کارنامہ یہ بھی تھا کہ اُنہوں نے ایک کثیر رقم خرچ کرکے نیویارک میں میں ایک مہاجر کانفرنس منعقد کی تھی ، جس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اراکین اور سینیٹرز نے شرکت کی تھی۔ موسیقی کی دنیا میں ڈاکٹر بیزار کا مقابلہ بھی شاید کرنا ناممکن ہے۔ اُنہوں نے منی بیگم کی سریلی آواز کے جادو کو لیگ کے اسٹیج پر بکھیر کر ایک ریکارڈ قائم کیا تھا ۔ موسیقی کا اتنا اچھا پروگرام میں نے تاہنوز نہیں دیکھا یا سنا ہے۔
ڈاکٹر شفیع بیزار اب ہم میں نہیں ہیں ، لیکن شکوہ جو مجھے اُن سے یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو بیمار ہونے کا موقع ہی کیوں دیا؟ کیوں نہیں وہ دوسرے ڈاکٹر کی طرح فیس وصول کرتے رہے اور اپنے شاندار محل نما گھر کو دکھانے کیلئے اپنے دوست احباب کو مدعو کرتے رہے۔ کیوں نہیں وہ بھی اپنے لب کشائی کو شجر ممنوعہ سمجھا ۔ کیوں نہیں جب امریکا میں مہاجروں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کیلئے کوئی ڈاکٹر نے بھی احتجاج نہیں کیا تو پھر ڈاکٹر شفیع بیزار نے کیوں اِس کانٹے بھرے دریچے میں کودپڑے۔ ڈاکٹر شفیع بیزار اگر آج زندہ ہوتے تو مجھے یقین ہوتا کہ میرے سر پہ بھی میرے باپ کا سایہ موجود ہے۔ لیکن میں اب اپنے آپ کو یتیم سمجھتا ہوں۔ اﷲتعالی اُنہیں جنت الفردوس میں اعلی درجہ عطا فرمائے۔