قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے ہر چند سرکار دو عالم کی شخصیت پر لکھنا کوئی عام بات نہیں ،یہ تو شرف ہے جس کو مل جائے ،یہ تحقیق میرے دوست نوری بھائی کی ہے اور حوالہ جات بھی مطالعہ فرمائیے! محراب ابرو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہِ والِہ وسلم کی بھوئیں دراز و باریک اور گھنے بال والی تھیں اور دونوں بھوئیں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور ان دونوں بھوئوں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت اُبھر جاتی تھی۔[21] (شمائل ترمذی ص) ۔ اعلیٰ حضرت رحم اللہِ تعالیٰ علیہِ ابروئے مبارک کی مد ح میں فرماتے ہیں کہ !
جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی ان بھوئوں کی لطافت پہ لاکھوں سلام اور حضرت محسن کاکوروی رحم اللہِ تعالیٰ علیہِ نے چہرہ انور میں محراب ابرو کے حسن کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ لکھا کہ مہ کامل میں مہ نور کی یہ تصویریں ہیں یا کھنچی معرکہ بدر میں شمشیریں ہیں: نورانی آنکھ: آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں ۔ پلکیں گھنی اور دراز تھیں ۔ پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک سرخ ڈورے تھے۔(شمائل ترمذی ص و دلائل النبو ص)
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بیک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں ، اوپر نیچے،دن رات، اندھیرے اُجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔(زرقانی علی المواہب ج ص وخصائص کبری ج ص) چنانچہ بخاری و مسلم کی روایات میں آیا ہے کہ!
اقِیموا الرکوع والسجود فواللہ اِنِی لا راکم مِن بعدِی[24] (مشکو ص باب الرکوع) یعنی اے لوگو!تم رکوع و سجود کو درست طریقے سے ادا کرو کیونکہ خدا کی قسم! میں تم لوگوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔ صاحب ِمرقا نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ وھِی مِن الخوارِقِ التِی اعطِیھا علیہِ السلام[25] (حاشیہ مشکو ص باب الرکوع) یعنی یہ باب آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے ان معجزات میں سے ہے جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی آنکھوں کا دیکھنا محسوسات ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ غیر مرئی وغیر محسوس چیزوں کو بھی جوآنکھوں سے دیکھنے کے لائق ہی نہیں ہیں ،دیکھ لیا کرتے تھے، چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ واللہ ما یخفی علی رکوعکم ولا خشوعکم[26] (بخاری ج ص) ۔ یعنی خدا کی قسم! تمہارا رکوع و خشوع میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ سبحان اللہ !پیارے مصطفی صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی نورانی آنکھوں کے اعجاز کا کیا کہنا؟کہ پیٹھ کے پیچھے سے نمازیوں کے رکوع بلکہ ان کے خشوع کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔
خشوع کیا چیزہے ؟خشوع دل میں خوف اور عاجزی کی ایک کیفیت کا نام ہے جو آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہی نہیں ہے مگر نگاہ نبوت کا یہ معجزہ دیکھو کہ ایسی چیز کو بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جو آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ سبحان اللہ ! چشمانِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے اعجاز کی شان کا کیا کوئی بیان کر سکتا ہے؟ اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہ نے کیا خوب فرمایا
شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال
دھوم والنجم میں ہے آپ کی بینائی کی
فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر
بس قسم کھائیے امی تری دانائی کی
بینی مبارک
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی متبرک ناک خوبصورت دراز اور بلند تھی جس پر ایک نور چمکتا تھا۔ جو شخص بغور نہیں دیکھتا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی مبارک ناک بہت اونچی ہے حالانکہ آپ کی ناک بہت زیادہ اونچی نہ تھی بلکہ بلندی اس نور کی وجہ سے محسوس ہوتی تھی جو آپ کی مقدس ناک کے اوپر جلوہ فگن تھا۔[27] (شمائل ترمذی ص وغیرہ)
نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
مقدس پیشانی
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضِی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے چہرہ انور کا حلیہ بیان کرتے ہیں کہ واسع الجبین یعنی آپ کی مبارک پیشانی کشادہ اور چوڑی تھی۔[28] (شمائل ترمذی ص)
قدرتی طورسے آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی پیشانی پرایک نورانی چمک تھی۔ چنانچہ دربار رسالت کے شاعر مداح رسول حضرت حسان بن ثابت رضِی اللہ تعالی عنہ نے اسی حسین و جمیل نورانی منظر کو دیکھ کر یہ کہا ہے کہ
متی یبد فِی الداجِی البھِیمِ جبِینہ!
یلح مِثل مِصباحِ الدجی المتوقِدِ[29]
یعنی جب اندھیری رات میں آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی مقدس پیشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جس طرح رات کی تاریکی میں روشن چراغ چمکتے ہیں ۔
گوش مبارک
آپ کی آنکھوں کی طرح آپ کے کان میں بھی معجزانہ شان تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے خود اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا کہ اِنِی اری مالا ترون واسمع مالا تسمعون(خصائص کبری ج ص) یعنی میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں دیکھتا اور میں ان آوازوں کو سنتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں سنتا۔[30]
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے سمع و بصر کی قوت بے مثال اور معجزانہ شان رکھتی تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم دورو نزدیک کی آوازوں کو یکساں طور پر سن لیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے حلیف بنی خزاعہ نے، جیسا کہ فتح مکہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے ہیں ، تین دن کی مسافت سے آپ کو اپنی امداد و نصرت کے لئے پکارا تو آپ نے ان کی فریاد سن لی۔ علامہ زرقانی نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ لا بعد فِی سمآعِہ صلی اللہ تعالی علیہِ وسلم فقد کان یسمع اطِیط السمآِیعنی اگر حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے تین دن کی مسافت سے ایک فریادی کی فریاد سن لی تو یہ آپ سے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ آپ تو زمین پر بیٹھے ہوئے آسمانوں کی چرچراہٹ کو سن لیا کرتے تھے بلکہ عرش کے نیچے چاند کے سجدہ میں گرنے کی آواز کو بھی سن لیا کرتے تھے۔[31] (خصائص کبری ج ص و حاشیہ الدول المکی ص)
دور ونزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام
دہن شریف
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضِی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے رخسار نرم و نازک اور ہموار تھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کا منہ فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے۔ جب آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔[32] (شمائل ترمذی صو خصائص کبری ج ص)
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کو کبھی جمائی نہیں آئی اور یہ تمام انبیا علیہم السلام کا خاصہ ہے کہ ان کو کبھی جمائی نہیں آتی کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور حضرات انبیا علیہِم السلام شیطان کے تسلط سے محفوظ و معصوم ہیں ۔[33] (زرقانی ج ص)
وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا
چشمہ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
زبان اقدس
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی زبانِ اقدس وحی الہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات ومخزن معجزات ہے اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحا و بلغا آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے ۔
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں ، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی مقدس زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ اعجاز تھا کہ
زبان سے جو فرمادیا وہ ایک آن میں معجزہ بن کر عالم وجود میں آ گیا۔
وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
اسکی پیاری فصاحت پہ بیحد درود اسکی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام
لعابِ دہن
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کا لعابِ دہن(تھوک) زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفا اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ چنانچہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضِی اللہ تعالی عنہ کے پاں میں غار ثور کے اندر سانپ نے کاٹا۔ اس کا زہر آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے لعابِ دہن سے اتر گیا اور زخم اچھا ہو گیا۔ حضرت علی رضِی اللہ تعالی عنہ کے آشوبِ چشم کے لئے یہ لعاب دہن شفا العین بن گیا۔ حضرت رفاعہ بن رافع رضِی اللہ تعالی عنہ کی آنکھ میں جنگ بدر کے دن تیر لگا اور پھوٹ گئی مگر آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے لعاب دہن سے ایسی شفا حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔ (زاد المعاد غزوہ بدر)
حضرت ابو قتادہ رضِی اللہ تعالی عنہ کے چہرے پر تیر لگا،آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا فورا ہی خون بند ہو گیا اور پھر زندگی بھر ان کو کبھی تیر و تلوار کا زخم نہ لگا۔[34] (اصابہ تذکرہ ابو قتادہ)
شفا کے علاوہ اور بھی لعاب دہن سے بڑی بڑی معجزانہ برکات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ حضرت انس رضِی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی اتنا شیریں ہو گیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا۔[35] (زرقانی ج ص )
امام بیہقی نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم عاشورا کے دن دودھ پیتے بچوں کو بلاتے تھے اور ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے تھے۔ اور ان کی ماں کو حکم دیتے تھے کہ وہ رات تک اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں ۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کا یہی لعاب دہن ان بچوں کو اس قدر شکم سیر اور سیراب کردیتا تھا کہ ان بچوں کو دن بھر نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس۔[36] (زرقانی ج ص)
جس کے پانی سے شاداب جان و جناں اس دہن کی طراوت پہ لاکھوں سلام
جس سے کھاری کنوئیں شیرہ جاں بنے اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام
آواز مبارک
یہ حضرات انبیا کرام علیہِم السلام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوب صورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضورِ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم تمام انبیا علیہِم السلام سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑھ کر خوش گلو، خوش آواز اور خوش کلام تھے،خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔[37] (زرقانی ج ص)
جس میں نہریں ہیں شیروشکر کی رواں
اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام
پرنور گردن
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضِی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی گردن مبارک نہایت ہی معتدل،صراحی دار اور سڈول تھی۔ خوبصورتی اور صفائی میں نہایت ہی بے مثل خوب صورت اور چاندی کی طرح صاف و شفاف تھی۔ [38] (شمائل ترمذی ص)
دست ِرحمت
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی مقدس ہتھیلیاں چوڑی، پرگوشت، کلائیاں لمبی، بازو دراز اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔[39] (شمائل ترمذی ص)
حضرت انس رضِی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی ریشم اور دیبا کو آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و نازک نہیں پایا اور نہ کسی خوشبو کو آپ کی خوشبو سے بہتر اور بڑھ کر خوشبودار پایا۔[40] (بخاری ج ص باب صف النبی صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم ج ص)
جس شخص سے آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم مصافحہ فرماتے وہ دن بھر اپنے ہاتھوں کو خوشبو دار پاتا۔ جس بچے کے سر پر آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم اپنا دست اقدس پھرا دیتے تھے وہ خوشبو میں تمام بچوں سے ممتاز ہوتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضِی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر آپ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی نکلا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے آپ کی طرف دوڑ پڑے تو آپ ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دست ِرحمت پھیرنے لگے میں سامنے آیا تو میرے رخسار پر بھی آپ نے اپنا دست ِمبارک لگا دیا تو میں نے اپنے گالوں پر آپ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔ [41] (مسلم ج ص باب طیب ریحہ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم )
اس دست مبارک سے کیسے کیسے معجزات و تصرفات عالم ظہور میں آئے ان کا کچھ تذکرہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے۔
ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام
جس کو بار دو عالم کی پروا نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
کعبہ دین و ایماں کے دونوں ستون ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام
جس کے ہر خط میں ہے موج نور کرم اس کف بحر ہمت پہ لاکھوں سلام
نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام
شکم و سینہ
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کا شکم و سینہ اقدس دونوں ہموار اور برابر تھے۔ نہ سینہ شکم سے اونچا تھا نہ شکم سینہ سے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کا سینہ چوڑا تھا اور سینہ کے اوپر کے حصہ سے ناف تک مقدس بالوں کی ایک پتلی سی لکیر چلی گئی تھی مقدس چھاتیاں اور پورا شکم بالوں سے خالی تھا۔ ہاں شانوں اور کلائیوں پر قدرے بال تھے۔[42] (شمائل ترمذی ص)
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کا شکم صبروقناعت کی ایک دنیا اور آپ کا سینہ معرفت الہی کے انوار کا سفینہ اور وحی الہی کا گنجینہ تھا۔
کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
پائے اقدس
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے مقدس پاں چوڑے پر گوشت، ایڑیاں کم گوشت والی، تلوا اونچا جو زمین میں نہ لگتا تھا دونوں پنڈلیاں قدرے پتلی اور صاف و شفاف، پاں کی نرمی اور نزاکت کا یہ عالم تھا کہ ان پر پانی ذرا بھی نہیں ٹھہرتا تھا۔[43] (شمائل ترمذی صومدارج النبو وغیرہ)
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم چلنے میں بہت ہی وقار و تواضع کے ساتھ قدم شریف کو زمین پر رکھتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضِی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ چلنے میں میں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم سے بڑھ کر تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لئے لپیٹی جاتی تھی۔ ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کے ساتھ دوڑا کرتے تھے اور تیز چلنے سے مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر آپ نہایت ہی وقار و سکون کے ساتھ چلتے رہتے تھے مگر پھر بھی ہم سب لوگوں سے آپ آگے ہی رہتے تھے۔[44] (شمائل ترمذی ص وغیرہ)
ساقِ اصل قدم شاخ نخل کرم شمع راہ اصابت پہ لاکھوں سلام
کھائی قرآن نے خاکِ گزر کی قسم اس کف پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام
لباس
حضور صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے ۔اون اور کتان کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے استعمال فرمایا ہے۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہمد، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی،موزہ ان سب کو آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے زیب تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ نے پسند فرمایا اور منی کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ کبھی آپ نے پائجامہ پہنا ہو۔[45]
عمامہ
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم عمامہ میں شملہ چھوڑتے تھے جو کبھی ایک شانہ پر اور کبھی دونوں شانوں کے درمیان پڑا رہتا تھا۔آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کا عمامہ سفید، سبز، زعفرانی، سیاہ رنگ کا تھا۔ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے ۔[46] (شمائل ترمذی ص وغیرہ)
عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور ہوتی تھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے عماموں میں یہی فرق و امتیاز ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں ۔[47] (ابو داد باب العمائم ص ج مجتبائی)
چادر
یمن کی تیار شدہ سوتی دھاری دار چادریں جو عرب میں حبرہ یا بردیمانی کہلاتی تھیں آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھیں اور آپ ان چادروں کو بکثرت استعمال فرماتے تھے۔ کبھی کبھی سبز رنگ کی چادر بھی آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے استعمال فرمائی ہے۔[48] (ابو داد ج ص باب فی الخضر مجتبائی)
کملی
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کملی بھی بکثرت استعمال فرماتے تھے یہاں تک کہ بوقت ِوفات بھی ایک کملی اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبردہ رضِی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہانے ایک موٹا کمبل اور ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور فرمایا کہ انہی دونوں کپڑوں میں حضور صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے وفات پائی۔[49] (ترمذی ج ص باب ماجا فی الثوب)
نعلین اقدس
حضور صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان میں چپل ہوتے ہیں ۔ چمڑے کا ایک تلا ہوتا تھا جس میں تسمے لگے ہوتے تھے آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کی مقدس جوتیوں میں دو تسمے عام طور پر لگے ہوتے تھے جو کروم چمڑے کے ہوا کرتے تھے۔[50] (شمائل ترمذی ص وغیرہ)
پسندیدہ رنگ
آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے سفید، سیاہ، سبز، زعفرانی رنگوں کے کپڑے استعمال فرمائے ہیں ۔ مگر سفید کپڑا آپ کو بہت زیادہ محبوب و مرغوب تھا، سرخ رنگ کے کپڑوں کو آپ بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضِی اللہ تعالی عنہماسرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے ناگواری ظاہر فرماتے ہوئے دریافت فرمایا کہ یہ کپڑا کیسا ہے؟۔ انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے سنا تو فرمایا کہ اس کو جلانے کی ضرورت نہیں تھی کسی عورت کو دے دینا چاہیے تھا کیونکہ عورتوں کے لئے سرخ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح حضور صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو دوسرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھا اس نے آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔[51] (ابو دادج ص، باب فی الحمر)
انگوٹھی
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہِ والِہ وسلم نے بادشاہوں کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے کہا کہ سلاطین بغیر مہر والے خطوط کو قبول نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہِ والِہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر اوپر تلے تین سطروں میں محمد رسول اللہ کندہ کیا ہوا تھا۔[52] (شمائل ترمذی ص وغیرہ)
٭٭٭