گزشتہ دنوں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک پورا خاندان دریائے سوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگیا۔ یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک چیخ ہے اور ہماری نااہل حکومتی مشینری کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ دو گھنٹے… جی ہاں، پورے دو گھنٹے تک بے بس مرد، عورتیں اور معصوم بچے مدد کی ایک جھلک کو ترستے رہے۔ کسی کشتی کا کوئی پتہ نہیں، کسی ہیلی کاپٹر کی کوئی آہٹ نہیں۔ دریا کا شور بڑھتا گیا، اور انسانی چیخیں آہستہ آہستہ خاموش ہوتی گئیں۔ ریسکیو کا دو گھنٹے طویل انتظار، دراصل ایک اعتراف تھا کہ یہاں انسان کی قیمت ایک خبر سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیا واقعی اتنا دشوار تھا فوری مدد پہنچانا؟ یا ہماری ترجیحات نے انسانی زندگی کو فائلوں اور بجٹ کی گرد میں دفن کردیا ہے؟ اس دلخراش واقعے نے ہمیں بتا دیا کہ اگر آپ سیر و تفریح کی نیت سے کسی پہاڑ یا دریا کے کنارے جائیں، تو حفاظت صرف اور صرف اللہ کے سپرد ہے۔ حکومت کی طرف سے نہ کوئی تیاری، نہ کوئی نظام، نہ کوئی شرمندگی۔ یہ صرف ایک خاندان نہیں ڈوبا، یہ ہماری اجتماعی غفلت اور نااہلی بھی پانی میں بہہ گئی ۔افسوس کہ کسی کو اس کا دکھ بھی نہ ہوا۔ میرا اس برس ارادہ تھا کہ فلک بوس پہاڑوں، نیلگوں جھیلوں اور شفاف فضاں کے دیس، گلگت بلتستان کا رخ کیا جائے۔ دل میں کئی خواب تھے، جنہیں شمال کی ہوا میں پروان چڑھانا تھا۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ فیصل آباد سے اسلام آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ مہانڈڑی کے مقام پر ناران جانے والا واحد پل، مرمت کی غرض سے چار دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف ناران میں محصور سیاح واپسی کی راہیں تکتے، سڑکوں پر پریشان کھڑے تھے۔ اسی پل سے گزر کر ہی گلگت کی طرف جانا ممکن تھا۔ یوں گلگت بلتستان جانے کے ارمان دل میں ہی دفن کرنا پڑے اور ہنگامی طور پر متبادل پروگرام ترتیب دینا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ کام صرف چار دن کا تھا، تو سیاحت کے باقاعدہ سیزن سے قبل کیوں نہ نمٹایا گیا؟ میری طرح نجانے کتنے اور مسافر ہوں گے جنہوں نے چھٹیاں لے کر، وقت اور پیسہ لگا کر منصوبے بنائے ہوں گے اور پھر یوں بدنظمی کی ٹھوکریں کھائی ہوں گی۔ فیصل آباد سے اسلام آباد تک آنے والا ایک مسافر، جس نے سرکاری نوکری سے رخصت لے رکھی تھی، سڑک کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب وہ کہاں جائے؟ واپس کیسے لوٹے؟ اور کیوں؟ ہمارے سامنے دو راستے تھے: ایک سوات کی وادی، دوسرا کشمیر کا حسن۔ میں نے سوات کا انتخاب کیا۔ میں چار پانچ سال قبل بھی وہاں جاچکا تھا۔ چونکہ اس بار میرے ساتھ اہلِ خانہ بھی تھے، تو میں نے بہتر جانا کہ کسی مانوس مقام کا سفر اختیار کیا جائے۔ اور یہ بھی سوچا کہ حالات اب پہلے سے بہتر ہوں گے۔ کیونکہ حکومت سیاحت کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، تو شاید اس بار تجربہ پہلے سے خوشگوار ہو۔ موٹروے پر سفر پرسکون رہا، اور پھر ہم سوات موٹروے سے گزرے، جو واقعی ایک خوبصورت شاہراہ ہے۔ مینگورہ تک کا سفر ہموار تھا، اور وہاں سے ہم نے مالم جبہ کا رخ کیا۔ مالم جبہ کی طرف بڑھتے ہوئے حیرانی تب ہوئی جب معلوم ہوا کہ اتنے مقبول سیاحتی راستے پر اکثر مقامات پر موبائل سگنلز ہی موجود نہیں۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں موبائل سگنل، سیاحوں کو سیفٹی کا احساس دلاتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں آپ اپنے آپ کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ مالم جبہ سے کوئی آٹھ دس کلومیٹر قبل ہی ہم ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ بارش نہ ہونے کے باعث موسم قدرے گرم تھا اور ہوٹل میں پنکھے کی ضرورت تھی۔ مگر پنکھے کی رفتار ایسی تھی گویا چل تو رہا ہے، مگر ہوا دینے سے انکاری۔ استفسار پر بتایا گیا کہ مالم جبہ سمیت اس سارے علاقے میں لوڈ کا مسئلہ ہے، اور شاید رات بارہ بجے کے بعد بجلی معمول پر آئے۔ اتنی بڑی وادی، اور سیاحوں کا ہجوم، پھر بھی بجلی کا ایسا حال؟ ہے ناں حیرانی کی بات! صبح ہوتے ہی ہم نے سامان گاڑی میں رکھا اور مالم جبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ نسبتا بہتر تھا۔ چیئر لفٹ کا وقت صبح نو بجے تھا، اس لیے وقت پر پہنچے، لیکن دل تب دھک سے رہ گیا جب معلوم ہوا کہ چیئر لفٹ کی ٹکٹ 2 ہزار روپے فی فرد ہے، بہت سے سیاح ایسے ہوتے ہیں جو بمشکل پانچ سات ہزار میں مالم جبہ کا ٹور مکمل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تو یہ قیمت ایک دھچکا ہے۔ بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قبل یہی ٹکٹ 1500 روپے تھی، جسے اسی سال بڑھا کر کے اب 2 ہزار پر لایا گیا ہے۔ کوئی اور مناسب تفریح نہ ہونے کے باعث یہ خرچ ہر سیاح کی مجبوری بن جاتا ہے۔ چیئر لفٹ سے پہاڑوں کا نظارہ، بلند فضاں میں معلق ہو کر قدرتی حسن کو دیکھنا، یقینا ایک خوشگرار تجربہ ہے۔ وہاں سے نکلے اور کالام کا رخ کیا۔ کالام کا راستہ دریائے سوات کے ساتھ ساتھ ہے ۔ بحرین سے آگے کئی مقامات پر سڑک انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب میں یہ سڑک بری طرح متاثر ہوئی تھی، اور آج تک اس کی مناسب مرمت نہیں ہو سکی۔ سوال یہ ہے کہ دو سال سے سرپلس بجٹ بنانے والی حکومت کو یہ سڑک کیوں نظر نہیں آتی؟ یہاں روز سیاح خوار ہورہے ہیں۔ سگنلز اور ریسکیو کی عدم موجودگی اور سیاحوں کی رہنمائی کیلیے ایک بورڈ تک کا نہ ہونا، یہ سب ایک بڑی کوتاہی ہے۔ آخر سیاحوں کی جان و مال کی حفاظت کون کرے گا؟ کیا یہ ذمے داری صوبائی حکومت کی نہیں؟ اور اگر ہے، تو یہ سب کس دن کے لیے چھوڑ رکھا ہے؟ سڑکیں، سگنلز، صفائی، ریسکیو، یہ سب سیاحتی مقامات کی ناگزیر ضرورتیں ہیں۔ ڈوبنے والے اس خاندان کا خیال بار بار دل میں آتا ہے۔ وہ معصوم چہرے، وہ بیبس آنکھیں، وہ لمحے جب انسان مدد کے لیے آسمان کی طرف دیکھتا ہے، اور زمین پر کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے …جن حکومتوں سے پچھلے تین برس میں کالام کی دریا برد ہوجانے والی سڑک مرمت نہ ہوسکی، جن سے پورے ایک سال میں مہانڈری کا پل تعمیر نہ ہوسکا، ان سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ محض دو گھنٹوں میں ایک خاندان کو ڈوبنے سے بچا لیں گے؟ ایسے حالات میں بس یہی کہا جا سکتا ہے: نا للہ ونا لیہ راجعون! ہم اللہ کے لیے ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
٭٭٭













