امریکی کامے کُڈو تحریک !!!

0
112
رمضان رانا
رمضان رانا

امریکہ میں کروڑوں آباد کا رہائش پذیر ہیں جن کے باپ دادا پوری دنیا سے آکر آباد ہوئے تھے جس کے بارے میں سابقہ صدر جان ایف کینڈی نے اپنی کتاب دی نیشن آف امیگرینٹس میں لکھا تھا کہ امریکہ میں دو قسم کے لوگ آباد ہیں ایک وہ جو نیٹو امریکن دوسرے امیگرینٹس امریکن ہیں جو گزشتہ چند صدیوں اور دہائیوں سے امریکہ آکر آباد ہوئے ہیں جن پر برطانوی نو آبادیات کا قبضہ تھا جس کو باقاعدہ جنگ لڑ کر حاصل کرنے والی تیرہ کالونیوں کو ریاست ہائے امریکہ کانام دیا گیا تھا جو بعد میں ضم ہونے پر پچاس کی تعداد بن گئی۔ اگر آج بھی اندازہ لگایا جائے تقریباً پندرہ ملین نان امیگرینٹس امریکہ میں آباد ہیں جس میں چالیس فیصد کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرتے ہیں باقی شہروں کی صفائی ستھرائی کرتے نظر آتے ہیں جن کے بعد آج امریکہ صاف ستھرا نہیں رہ سکتا ہے ناہی کھیتوں میں اناج اُگا سکتا ہے۔ چونکہ امریکہ میں نسل پرستی کا دور دور ہے جس میں سفید فام تمام رنگداروں کا دشمن بن چکا ہے سیاہ فام بھی تمام ایشن کا مخالف نظر آتا ہے کہ جس کا مظاہرہ حال ہی میں نظر آیا کہ نیویارک شہر کے میئر کے امیدوار زہران ممدانی کو گورا اور کالا دونوں مسلم سائوتھ ایشن سے پکار رہے ہیں حالانکہ ممدانی صاحب یوگنڈا کے شہر کمپالا میں پیدا ہوئے ہیں جو یوگند پن افریقن پیدائشی شہری تھے جنہوں نے بعد میں سات سال کی عمر میں امریکہ آکر باد ہو کر امریکی شہریت حاصل کی تھی جس پر نیویارک شہر کے میئر سیاہ فام آدم نے کہا کہ افریقن صرف سیاہ فام ہوتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ افریقہ میں بعض ایسے ممالک بھی ہیں جو سیاہ فام نہیں ہیں جس میں تیونس، چڈ، مراکش، الجیریا، لیبیا، مصر، سوڈان وغیرہ قابل ذکر ہیں جبکہ باقماندہ افریقہ میں کروڑوں غیر سیاہ فام آباد ہیں جو صدیوں سے آکر افریقہ میں آباد ہوئے تھے جس طرح سیاہ فام پورے عرب ممالک کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان میں بھی آباد ہیں تاہم محنت کش غریب مفلس نئے آباد کار آج زیر عتاب آچکے ہیں جس میں کھیتوں، کھلیانوں، باغوں گھروں باروں کے مزدور طبقے کو ملک بدر کیا جارہا ہے اگر یہ سلسلہ طویل پکڑ گیا تو کامے کڈو تحریک ہل کون چلائے گا۔ جن کی وجہ سے آج امریکن شہری روٹی کھا رہے ہیں۔ چونکہ امریکہ میں بھی یورپ کی طرح مڈل کلاس کی وجہ سے نچلے درجے کا مزدور آج کی ڈیمانڈ بن چکا ہے۔ جن کے بغیر اب شہروں دیہاتوں، کھیتوں، کھلیانوں، گھروں بادوں کی دیکھ بھال کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ہے۔ جس کے لئے لازم ہے کہ صدر ریگن کی طرح دوبارہ تمام نان امیگرینٹس کو ایمنسٹی دی جائے تاکہ امریکہ کا کاروبار جاری رہے ورنہ یورپ کی طرح لیبر کی قلت پیدا ہوجائے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here