نواب نقوی کے والدِ محترم حضرتِ کلیم سائلی ایک نامور شاعر تھے اور مجھے ان سے شرفِ ملاقات حاصل ہے۔ ان کا لباس ، اندازِ گفتگو اور فنافی الشعر اپنی مثال آپ تھا۔ لکھنوی اور دہلوی تہذیب کی شگفتگی اور شائستگی ان کے رگ و پے میں رچی بسی تھی۔ پروفیسر نواب نقوی کو شاعری ورثہ میں ملی ہے۔ آپ کی شاعری کی زبان عطر بیز اور دل آویز ہے۔ راولپنڈی کے مشہور کالج گورڈن کالج میں ایک مدت تک اردو زبان کے پروفیسر رہے ہیں۔ ہم دونوں مدتِ مدید تک کالج میں کولیگ رہے اور ہماری پرخلوص دوستی آج بھی قائم ہے جو دائم ہے۔ وہ نہایت روا دار اور باوقار شخصیت کے مالک ہیں۔ چہر متبسم ان کی پہچان اور اخلاقِ حسنہ ان کی شان۔ آپ کا اندازِ درس و تدریس ادیبانہ، عالمانہ ، مشفقانہ اور استادانہ تھا۔ اِن کے شاگرد آج بھی اِن کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتے ہیں۔ آپ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں گو کہ آپ نے ہر صنفِ شاعری میں طبع آزمائی کی ہے۔ حمد و نعت و سلام و منقبت کے علاوہ رباعی میں یدِ طولی رکھتے ہیں۔آپ کی ایک نظم آج واٹسسیپ پر موصول ہوئی ۔ یہ نظم معاشرے کی زبوں حالی اور کشورِ چمن کی بربادی کا دلگیر و دلدوز نوحہ ہے۔ جو شاعر زمینی حقائق سے بے خبر اور نابلد ہو اسے شاعر کہنا شاعری کی تو ہین ہے۔ شاعر صاحبِ شعور کو کہتے ہیں۔ افسوس صد افسوس آجکل کثیر تعداد میں بے شعور متشاعر شاعر ہونے کے دعویدار ہیں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں زندگی کے مسائل سے نا آشنا اور حادثات و حوادث انساں سے نابلد ۔ بقولِِ علامہ اقبال!!!
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
نواب نقوی کی شاعری میں زبان و بیان کے اعتبار سے مرزا غالب کا رنگ نمایاں ہے۔ آپ کی شاعری میں فکر کی گہرائی ہے۔ جذبات کی شدت کی جولانی بھی ہے اور تفکر کی فراوانی بھی ہے۔ آپ شعرا کی عام روش سے ہٹ کر نئے انداز میں شعر کہتے ہیں۔ اگر یوں کہوں تو بے جا نہ ہو گا!
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
آپئے اب اختصار سے جنابِ نواب نقوی کی تازہ نظم کا جائزہ لیتے ہیں! کہتے ہیں!!!
عوام الناس کو صدیوں سے بھٹکایا ہوا ہے
سیاست نے جہاں میں گند پھیلایا ہوا ہے
جب سیاست کارِ شیطانی ہو اور وہ خدمتِ انسانی سے کوسوں دور ہو تو اس پر لعنت ہی بھیجی جا سکتی ہے۔ سیاست جب غریبوں کے نام پر ووٹ حاصل کر کے ان کا خون چوسنا ہو تو وہ سیاست نہیں بلکہ خباثت ہے۔ جب سیاست جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہو تو وہ سیاست نہیں شیطنت ہے۔ علامہ اقبال کی نظم فرشتوں کا گیت جس میں وہ انسان سے خطاب کرتے ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت و سیاست کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال ابلیس کی مجلسِ شوری اور لینن والی نظم میں دعوتِ انقلاب دیتے ہوئے کہتے ہیں!
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات
آج سے کئی صدیوں قبل اس سرمایہ دارانہ اور شہنشاہانہ سیاست کے بارے میں حافظ شیرازی نے کہا تھا
اسپِ تازی شدہ مجروح بزیرِ پالان
طوقِ زرین ہمہ در گردنِ خر می بینم
نواب نقوی کے اس انقلابی شعر کی تشریح کے لئے کئی دفتر درکار ہیں۔ مجھے پھر علامہ اقبال کے اِن اشعار کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ ساقی نامہ میں کہتے ہیں
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
چین کے انقلابی رہنما مازے تنگ جو فلسفی اور شاعر بھی تھے کا قول ہے کہ غریبوں کا انقلاب صرف غریب قیادت ہی لا سکتی ہے۔ میرے شعری مجموعہ میخانہ میں ایک نظم بعنوان سیاست دان ہے- اِس نظم کے ہر بند میں ٹیپ کا یہ مصرع جانِ نظم ہے۔ سیاست امیروں کی لونڈی رہی ہے – امیر قیادت ہمیشہ دھوکا ہی دیتی ہے۔ نواب نقوی کسی ایسے مصلح کی تلاش میں ہیں جوموجودہ سیاست کے گند کو صاف کر کے ایک صاف ستھرا معاشرہ قائم کرے –
کہتے ہیں
کبھی قومیت و رنگ و نسب کی چیرہ دستی
کھی کج بحثء مسلک میں الجھایا ہوا ہے
ہماری تاریخ کا یہ المیہ ہے جو آج بھی ہمارے سروں پر تیغِ بے نیام کی طرح لہرا رہا ہے وہ ہمارے اندر رنگ و نسب اور مسالک کے خود ساختہ تنازعات ہیں۔ قرآنِ مجید نے صرف اور صرف تقوی کو معیار فضیلت قرار دیا ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلعم نے خطب حجتہ الوداع میں ارشاد فرمایا کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر فوقیت حاصل ہے ۔ وج برتری صرف تقوی ہے- نواب نقوی انسانوں کی بنامِ مسلک و رنگ و حسب و نسب تقسیم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور وحدتِ انسسانیت و احترامِ انسانیت کے داعی ہیں-
کہتے ہیں
کہیں ہے ابنِ آدم عاجز و مجبور و مقہور
کہیں پر بِنتِ حوا پر ستم ڈھایا ہوا ہے
یہ شعر ہمارے بوسیدہ اور ذہنی طور پر پسماندہ معاشرے کا عکاس ہے- ابنِ آدم کی مجبوری تو داستان اندوہناک سہی مگر جس طرح خواتین کے ساتھ ماضی میں بدسلوکیاں کی گئیں ان کا ذکر کرتیہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کبھی بیٹی پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دی جاتی اور کبھی اسے مردہ خاوند کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا جسے مذہبی رسمِ ستی قرار دیا جاتا۔ عورتوں کو نہ تعلیم حاصل کرنے اور نہ ہی مرضی کی شادی کی اجازت ہوتی اور یہ رسم کئی معاشروں میں ابھی تا جاری ہے۔افسوس صد افسوس چند دن قبل ایک شخص نے اپنی بیوی اور نوزائیدہ بیٹی کو گولی مار کر اِس لئے قتل کر دیا کہ اس کی بیوی نے بیٹے کی بجائے بیٹی کیوں پیدا کی۔ جس رسول نے بیٹی کو رحمت قرار دیا ہو اور وہ اپنی بیٹی کی آمد پر اس کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوں ان کا ایک امتی اتنا جاہل اور سنگدل ہو۔الاماں و الحفیظ۔ انہی انسانی سانحات کے خلاف نواب نقوی صدائے احتجاج بلند کرتیہوئے
کہتے ہیں
یہی سفاک قاتل ہیں زمیں پر جن کے باعث
سکون و آشتی کا چاند گہنایا ہوا ہے
نواب نقوی اِن انسان دشمن قوتوں کو سفاک قاتل قرار دیتے ہیں۔یہ وہ خونیں صفت درندے ہیں جو جام تلبیس پہنے انسانوں کو دھوکا دیتے ہیں- یہ ظالم و فاسق و فاجر لوگ غریبوں، مقہوروں، مظلوموں اور بے کسوں کا بے دریغ استحصال کرتے ہیں- نواب نقوی کی اِس نظم میں روحِ علامہ اقبال گنگناتی محسوس ہوتی ہے جس نے کہا تھا
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے
نظم کے آخری شعر میں وہ بصد درد و کرب سوال کرتے ہیں
ستم کمزور لوگوں پر روا کب تک رہے گا
لہو کی بارشوں کا سلسلہ کب تک رہے گا
اس شعر میں ان خونیں بارشوں کا ذکر بڑی دردمندی سے کیا گیا ہے جنہوں نینسلِ انساں کو لہو رنگ کر دیاہے اور بے نواں کی آواز بن کر وہ ستم کے خاتمے کے نقیب دکھائی دیتے ہیں۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہوتواب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
اب نواب نقوی دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بن کر تمام گروہوں ، قبیلوں اور مسلکوں سے بے نیاز ہو کر انسان دوستی کا اعلان کرتے ہیں۔ دنیا میں صرف دو ہی طبقات ہیں- ظالم و مظلوم- نواب نقوی مظلوموں کا شاعر ہے-نواب نقوی کی یہ انقلابی، انسانی اور اصلاحی نظم نقار خلق خدا اور بانگِ درا ہے جسے داراب جویا نے یوں کہا تھا
میانِ اہلِ دنیا مردِ مفلس خوار می گردد
الف چون درمیانِ زر در آید زار می گردد