سیاست، عدالت، حکومت، صحافت میں کسی بھی ملک کی معاشرت کی خوبصورتی اور سچی تصویر پنہاں ہوتی ہے لیکن اگر مخاصمت، خباثت، منافرت اور رقابت در آئیں تو ملک کی معاشرت بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہے۔ وطن عزیز کی حالیہ صورتحال جس نہج پر آپہنچی ہے وہ واضح طور سے بھیانک صورت کی واضح نشاندہی کر رہی ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے سیاسی منظر نامے نے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ ہم کس رخ پر چل رہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر کھلواڑ، آئین کے تسلسل کی آڑ اور نیوٹرل کے دعوئوں کی جگاڑ میں گزشتہ آٹھ دنوں میں جو کچھ ہوا وہ سب پر آشکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک شدید انتشار و بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ کہنے کو تو عدم اعتماد کا مرحلہ جمہوری و آئینی اقدام ہے لیکن اس کے مابعد اثرات و مضمرات کیا ہونے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ ختم ہو گئی لیکن اس دوران جو عدالتی، اختیاری و انضباطی اقدامات و کارروائیاں ظہور میں آئیں، بہت سے سوالات سامنے آئے ہیں۔ مخالف سیاسی اتحاد کی حکومت قائم ہو چکی ہے، شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ہیں، تحریک انصاف کے تمام اراکین قومی اسمبلی بمعہ عمران خان مستعفی ہو چکے ہیں اور اندازہ یہ ہے کہ اپوزیشن کا وجود برائے نام ہی ہوگا۔ اب حکومتی بھان متی کے کنبے میں وزارتوں کی بندر بانٹ ہونی ہے۔ سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے کے مصداق ایم کیو ایم کے شکوے نے اس کا آغاز پہلے دن سے ہی کر دیا ہے۔ دوسری جانب کراچی سے کشمیر و گلگت بلتستان تک بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی مقیم ہیں عوام کا احتجاج اور کپتان کی حمایت کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
ہم اپنے گزشتہ کئی کالموں میں یہ اظہار کرتے رہے ہیں اور خود عمران خان بھی یہ کہہ چکا ہے کہ اقتدار سے نکل کر کپتان مخالفین کیلئے اور خطرناک ہو جائیگا۔ اس خدشے کو عوامی اجتماعی احتجاج کے طوفان نے حقیقت کا روپ دے دیا ہے اور عمران خان کی مقبولیت کو واضح کر دیا ہے۔ عوام کا یہ احتجاج نئے حکومتی رہنمائوں اور سیاستدانوں کے ہی نہیں ریاستی و آئینی اداروں کیخلاف بھی اظہار ہے۔ احتجاج کا یہ سلسلہ اور بیانیہ اور کپتان کا عوامی اجتماعات سے خطاب کرنا ایسے حالات کی نشاندہی ہے جو خانہ جنگی کا باعث بنیں۔ شہباز شریف کی حلف برداری کے وقت صدر مملکت کی علالت، آرمی چیف کی عدم شرکت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالات اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ درجن بھر سیاسی جماعتوں کی یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔ یہ بات بھی کوئی راز نہیں کہ موجودہ حکمران اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے بیوروکریسی، انتظامی، احتسابی اداروں اور دیگر شعبوں میں اپنے لوگوں کی تعیناتیاں کرینگے، گو یہ معمول کا عمل ہے اور ہر دور کی حکومتیں ایسا کرتی رہی ہیں لیکن یہ معمول کا عمل موجودہ حالات میں جب شریف خاندان سمیت دیگر حکومتی جماعتوں کیخلاف کرپشن و دیگر جرائم کے مقدمات ہیں ممکنہ طور پر یہ تعیناتیاں باعث اثرات ہو سکتی ہیں، اس کی پہلی مثال ہے کہ شہباز شریف کیخلاف فرد جرم کی پیشی کو ایف آئی اے کی جانب سے عین اس دن مؤخر کر دیا گیا جس دن موصوف کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانا تھا۔ یہ بھی ایک عجیب حقیقت ہے کہ 16 ارب کی منی لانڈرنگ کے الزام میں ضمانت پر رہا ہوئے ملزم کو ملک کی وزارت عظمیٰ کے منصب کا اہل قرار دیدیا گیا ہے، دلیل یہ ہے کہ الزام تاحال ثابت نہیں ہوا ہے اور آئین میں اس حوالے سے کوئی قدغن نہیں ہے۔ امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں سربراہ مملکت تو کجا اگر کسی منتخب نمائندے پر کوئی الزام ہو تو وہ اپنے فرائض و عہدے سے دستبردار ہو جاتا ہے تآنکہ اسے ان الزامات سے بری الذمہ قرار نہ دیدیا جائے۔ یہ بولعجبہ صرف ہمارے ہی وطن سے عبارت ہے کہ سیاست میں اخلاقیات کا کوئی گزر نہیں ہے۔ آئین کی آڑ میں منتخب وزیراعظم یا دیگر مقننہ کیخلاف تو اقدام کر دیئے جاتے ہیں خواہ آمریت کے حوالے سے ہوں، -58 2بی کے حوالے سے ہوں اور اگر کسی کو فیض سے نوازنا ہو تو نظریۂ ضرورت کام آتا ہے۔ عمران جیسا کھرا کھاٹ اپنے سچے نظرئیے اور ایمانداری کی پاداش میں حق حکمرانی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ عدلیہ کا ریکارڈ ہے کہ شریفوں کو ہمیشہ ریلیف دیاجاتا ہے خواہ معاملہ کتنا ہی گھمبیر کیوں نہ ہو۔
مفکّرِ پاکستان حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا!
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
عمران خان کا شمار ایسے ہی اہل ایمان میں ہوتا ہے۔ اسلام کی سربلندی، اسلاموفوبیا کیخلاف نبردآزما اور مدینہ منورہ میں در رسولۖ پر ننگے پیر حاضری دینے والا یہ فرزند اسلام و رہنمائے قوم اس پاداش کا سزاوار ہوا ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونا چاہتا ہے۔ لٹیر اسکینڈل میں حقیقت ہو یا نہ ہو یہ امر حقیقت ہے کہ بھٹو کی طرح عمران کو بھی مغرب نشان عبرت بنانا چاہتا ہے۔ ہم وطنوں کی یہ للکار غلط نہیں کہ ”روس تو ایک بہانہ ہے۔ عمران خان نشانہ ہے” لیکن مغرب کی یہ سازش اس لئے پنپنا ممکن نہیں کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں تمام پاکستانی عمران خان کیلئے سراپا احتجاج اور آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ سامراج کے پالتو گماشتے اقتدار میں آکر بھی عوام کے سمندر کے آگے ٹھہر نہیں پائیں گے۔ حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ یا تو خانہ جنگی کو دعوت دیں گے یا پھر عمران خان صورت خورشید پھر اُبر کر سامنے آئے گا اور قوم کی قیادت کریگا۔ وقت فیصلہ کریگا کہ کون فتح مند ہوا اور کسے شکست ہوئی۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضاء میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
٭٭٭