پاکستان کی طرح امریکا میں بھی غدار ہوتے ہیں جس کی نظیر جج جیکسن کی سپریم کورٹ میں نامزدگی کیلئے دیکھنے میں آئی، سب کے سب یعنی 50 ڈیموکریٹس سینیٹروں نے جج کیٹانجی براؤن جیکسن کی حمایت میں ووٹ ڈالا تھا لیکن اُن ووٹوں سے اُن کی نامزدگی یقینی نہیں تھی اور نائب صدر امریکا کاملا ہیرس کو بھی جج جیکسن کو نامزد کرنے کیلئے اپنے ووٹ ڈالنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی تاہم اُس سے قبل 3 ریپبلکن کے سنیٹرز جن میں میٹ رومنی، سوزن کولنز اور لیزا مرکوسکی اپنی پارٹی لائن کو عبور کرکے جج جیکسن کے حق میں ووٹ ڈال دیا جبکہ غالب ریپبلکن کی اکثریت جج جیکسن پر بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کو جرم کی سزا میں نرمی برتنے اور اِسی طرح کے دوسرے الزامات عائد کررہے تھے لہٰذا وہ تین سینیٹرز بھی امریکی ریپبلکن کیلئے غدار ہونے کا درجہ رکھتے ہیں۔ 4 اور 7 اپریل کے مابین ایک طویل فاصلہ تو نہیں ، لیکن یہ ضرور ہے کہ 4اپریل کو اپوزیشن کے رہنما اُمیدوں کی پرچھائیوں میں ڈوبے ہوے تھے . اُن کے گھروں خوشیوں کے چراغ روشن تھے،یہ بھی ایک عجب اتفاق تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کیلئے نامزد رہنما میاں محمد شہباز شریف 4 اپریل کو اپنے گھر سے ہنستے مسکراتے ہوے نکلے تھے. حتی کہ اُنہوں نے اپنی دونوں بیویوں کو یہ مژدہ بھی سنادیا تھا کہ جب وہ اِس گھر میں دوبارہ داخل ہونگے تو اُن کے سر پر وزارت عظمی کا تاج لہرا رہا ہوگا، اور اُن کے باڈی گارڈز اُنہیں سیلوٹ مارنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کررہے ہونگے. اُن کی بیویوں نے اُنہیں مشورہ دیا تھا کہ کیوں نہ وہ سیاہ شروانی زیب تن کر لیتے ہیں، اُنہوں نے اپنی بیویوں کو ٹال مٹول کر چُپ کردایا تھا، کیونکہ اُن کی بیویوں کو پتا نہ تھا کہ شیروانی کے ساتھ ٹوپی کا پہننا بھی ایک مسئلہ تھا. وہ کون سی ٹوپی پہنتے تاہنوز اِس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا. اُن کی کابینہ ابھی تشکیل نہیں پائی تھی ، بلکہ اِس کے ساتھ بہت سے اگر مگر کے الفاظ چسپاں تھے. یہی وجہ ہے کہ بارہا اُنہوں نے سر پہ وِگ پہننے کے بارے میں سوچا تھا، بلکہ ایک وِگ اُنہوں نے اپنے بریف کیس میں بھی رکھی ہوئی تھی جسے وہ آزمائشی طور پر پہن کر اپنے دست راستوں سے مشورہ بھی لیا کرتے تھے تاہم اُن کے ایک دوست نے اُس پر تبصرہ کرتے ہوے کہا تھا کہ وِگ پہن کر وہ بالکل ریڈ انڈین معلوم ہوتے ہیں، جس کی وجہ کر امریکا میں مقیم ریڈ انڈین کے قبیلے اپنے کلچر کی تضحیک کرنے کا الزام اُن پر عائد کر سکتے ہیں، اور امریکی صدر کو اِس ضمن میں مداخلت کرنا پڑ سکتا ہے، اُنہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ قومی اسمبلی کی دنگا مشتی میں کوئی اُن کے وِگ کو جھپٹا مارسکتا ہے، اُنہیں اُن لوگوں سے سخت نفرت ہے جن کے کیمرے کا عدسہ اُنکا ہر جگہ تعاقب کرتا رہتا ہے۔ تاہم یہ نوبت ہی نہ آئی کہ اُنہیں وِگ پہننے کی ضرورت پیش آئی یا باڈی گارڈز اُنہیں سیلوٹ مارنے کیلئے ریس لگانے لگے یا اُن کے گھر کے سامنے فوجی بینڈ بجنا شروع ہوگیا ، بلکہ اُنہوں نے اپنی روندھی ہوئی آواز میں کال کرکے اپنی بیویوں کویہ افسوسناک خبر سنادی کہ وزیراعظم عمران خان نے پنگا ڈال دیا ہے.وزارت عظمی تو دور کی بات ہے اُنکی قومی اسمبلی کی نشست بھی خطرے میں پڑگئی ہے، کیونکہ صدر پاکستان عارف علوی نے قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا ہے، وہ اراکین اسمبلی جنہوں نے مستقبل قریب میں مال بنانے کا ارادہ کیا تھا اُنکا چہرہ بھی سکڑ کر رہ گیا، شہباز شریف کی ایک بیوی نے کہا کہ ” اِسی لئے تو وہ اُنہیں دم کیا ہوا پانی کا ایک گلاس گھر چھوڑنے سے قبل پینے کو کہہ رہیں تھیں، لیکن اُنہوں نے کوئی توجہ نہ دی اور کالی مائی نے اپنا کام دکھا دیا. تاہم دوسری بیوی نے کہا کہ وہ ایسی سیاست سے تنگ آچکی ہیں، روز روز کی کوئی بُری ہی خبر سننے کو ملتی ہے. کبھی ایف آئی والے گھر پہ چھاپہ مارتے ہیں تو کبھی نیب والے اپنے دفتر بلا لیتے ہیں، 10ہزار روپے کیلئے گھنٹوں سوالات کرتے رہتے ہیں. یہ روپے کہاں سے آئے تھے اور
پھر کہاں چلے گئے ؟ کوئی اُن سے پوچھے تمہاری تنخواہ کہاں چلی گئی؟
دوسری جانب کپتان عمران خان4 اپریل کی صبح چار بجے منکی بار پہ ٹارزن کی طرح جمپ لگارہا تھا، اِس سے قبل اُس نے 50 ڈنڈ پیلے تھے. پیرنی جی اُس کی نگرانی کر رہیں تھیں، اُنہوں نے کپتان کو حکم دیا کہ وہ اب روحانی کرامات کیلئے تیار ہوجائیں، پیرنی جی نے حکم دیا کہ وہ اپنے سر کے بل کھڑے ہو جائیں ، اگر وہ اپنا بیلنس درست نہیں رکھ سکتے تو اپنے پاؤں کو دیوار کے ساتھ ٹیک لیں اور اِسی صورت میں وہ اُن منتروں کا ورد کریں جسے اُنہوں نے اُنہیں یاد کرایا تھا، روحانی کرامات ختم ہونے کے بعد پیرنی جی نے اُن کے سر پہ ایک سبز ٹوپی پہنادی تھی ، اور کہا تھا کہ اُن کی دستار بندی مکمل ہوچکی ہے، اور اب وہ کسی سے بھی مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کی گھبراہٹ کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ ہر دس منٹ بعد وہ پیرنی جی کو ٹیلیفون کر رہے تھے اور تمام کاروائی سے اُنہیں مطلع کرتے رہے، کبھی اُنہوں نے کہا کہ وہ اپنے ذاتی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں کہ حزب اختلاف والوں کا جمگھٹ اسمبلی ہال میں داخل ہو رہا ہے، وہ پوچھ رہے تھے اچھا آپ بتائیں کہ اب میں کیا کروں؟ پیرنی جی نے جواب دیا کہ صبر کرو،لیکن 7 اپریل کو جب سپریم کورٹ کا فیصلہ منظر عام پر آیا تو عمران خان نے یہ باور کرلیا کہ اُن کی کشتی کے پیندے میں چھید ہو چکا ہے، اور اِسے ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے، بہتر ہے کہ وہ گھر جاکر آرام کریں اور دوبارہ کرکٹ کھیلنے کی پریکٹس شروع کردیں۔