مولویوں کی بدنامی!!!

0
71
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

آج کا مضمون آج سے چالیس سال قبل کے اپنے جملے سے شروع کر رہا ہوں جو میں نے مدرس فیضیہ میں کہا تھا، ہماری قوم ہم سے امام کی سی توقع رکھتی ہے اور غلام کی سہولت بھی نہیں دیتی، نہ ہمیں معصوم سمجھیں اور نہ شودر تو ہم دونوں کی گاڑی چل سکتی ہے،قارئین! مولوی ہمارے معاشرے کا وہ پسا ہوا طبقہ ہے ۔ جسکا استحصال برصغیر اور بالاخص پاکستانیوں میں فرض منصبی سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ بہت سارے بچے مولوی بننے سے کیوں گریزاں ہوتے ہیں اور اسلئے کہ پاکستان میں مولوی کو کمی یا شودر سے کم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی اعلیٰ خاندان سے کیوں نہ ہوں! آپکو مسلی موچی یا مراثی کہہ کر ہی پکارا جائیگا جبکہ کمی میری نظر میں کوئی ذات نہیں ہے ۔ کمی کمیوں کی وجہ سے کمی ہوتے ہیں خواہ وہ خاندانی ہی کیوں نہ ہوں ۔ ویسے تو معیار فضیلت علم ،کردار، تقویٰ و جہاد بالنفس ہے۔ ذات پات نہیں ہے۔ یہ ہندوانہ تقریق ہے! مولوی کو ماں بہن کی گالی ہماری قوم کے گھسے پٹے افراد اپنا پیدائشی حق سمجھ کر دیتے ہیں، یہی لوگ لیڈر بنے ہوتے ہیں ۔ سیاسی جلسوں جلوسوں میں اپنی تصویریں اور سیلفیاں لینے کیلئے چاق و چوبند نظر آتے ہیں ۔ مولویوں کو بلیک میل کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر انہیں ناموس کی گالیاں خود یا جعلی آئی ڈیز سے بکتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ مولوی تو اس لیول پر آنے سے رہے ۔ کسی ایک مولوی پر جھوٹا الزام لگ جائے تو اسکی کوئی نہیں سنتا ،سارے ایکا کرکے اسکے خلاف نبرد آزما ہو جاتے ہیں ۔ اگر کسی ایک مولوی کی کوئی حرکت سامنے آجائے تو اسے نہ فقط اچھالا جاتاہے ۔بلکہ ہر مولوی کو ایسا ہی مشہور کیا جاتا ہے ۔ایسی تشہیر بازیوں اور منفی پوسٹوں کا ہدف یہ ہے کہ لوگ علما سے نفرت کریں تاکہ نقصان قوم کو ہو۔ اور تربیت قوم کرنے والے مربیوں کو اتنا بدنام کردو کہ گھروں میں قرآن و حدیث کی بجائے انڈین گانوں ۔ فلموں اور بے راہروی کی موویز چلیں ۔ یہ نقصان تو ہو ہی چکا ہے ۔ اگر کوئی ڈاکٹر آپریشن غلط کردے تو علاج انجینئر سے نہیں کرایا جاتا ۔ اور کوئی آرکیٹیکٹ نقشہ غلط بنادے تو عمارت سی پی اے سے نہیں بنوائی جاتی ۔ عالم اگر نیک ہو تو کار انبیا ع کرتا ہے برا ہو تو بلعم باعور طرز کا کتا یا بہکے یہودیوں کی مانند گدھا ہوتا ہے ۔ تاہم بدکار ملا بہت ہی کم ہیں۔ گیہوں کی ساتھ گھن کو نہ پیسے اور سوشل میڈیا پر مولوی کے نام کو بدنام نہ کیجئے ۔ آپ کے بچے کے کان میں اذان سے لیکر تدفین میت تک مولوی کے بغیر گزارا نہیں ہے ۔ نکاح و طلاق ہو یا جنازہ و جمعہ جماعات ، رمضان سروسز ہوں یا محرم وصفر کی مجالس، تعزیتی جلسے ، تعلیمات قرآن ہوں یا فاتحہ خوانیاں ، خوشی غمی ہو یا تبریک و تعزیت ہم مولوی کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانہ میں جنسی سکینڈلز پادریوں اور نندوں کے بنتے تھے مگر عیسائی سمجھ گئے کہ اس سے انکے مذہب کی توہین ہو رہی ہے ۔ تو اب یہ سلسلہ رک گیا،ویسے ہی آج مولویوں پر خورد برد کے جھوٹے الزام لگ رہے ہیں ۔ اپنے گریبا ن میں کوئی نہیں جھانکتا تاہم مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں میں یہ فکر توہین علما اس وقت بام عروج پر ہے۔ میں ساری زندگی کردار کی بابت بہت سخت رہا ہوں اور رہونگا تاہم تشییع فاحشہ اور تہمت کے اتنا ہی خلاف ہوں۔ جتنا جرائم اور خورد برد کے خلاف ۔ مجرموں کو سزا دی جائے اور دادا گیروں کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ شرفا پر تہمیتں لگاکر انہیں بد نام کریں، پگڑیاں اچھالیں اور سو چوہے کھا کر یہ بہروپئے حج پر جائیں یا سیاسی جلوس نکلواکر اپنے گناہ دھلوادیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here