غزہ رئیل اسٹیٹ!!

0
23

غزہ رئیل اسٹیٹ!!!

صدر ٹرمپ نے غزہ میں سالوں سے آباد فلسطینیوں کو حماس سے جوڑتے ہوئے ان کا دوبارہ غزہ میں داخلہ مکمل طور پر بند کر دیا ہے اور غزہ کو خریدنے اور اسے ایک رئیل اسٹیٹ سائٹ کے طور پر دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے،غزہ کو ہم مشرق وسطیٰ کی دوسری ریاستوں کو دے سکتے ہیں تاکہ اس کے کچھ حصوں کی تعمیر کی جا سکے۔ دوسرے لوگ ہماری سرپرستی میں ایسا کر سکتے ہیں لیکن ہم اس کی ملکیت حاصل کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ حماس واپس نہ آ سکے۔ وہاں واپس جانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، یہ جگہ انہدام کی جگہ ہے، بقیہ جگہ کو مسمار کر دیا جائے گا، سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔کسی خطے کے لوگوں کو وہاں سے نکال کر اس جگہ کو رئیل اسٹیٹ بنا دینے کی بات کرنے کی بجائے خود بدترین سفاکی اور گھٹیا انسانی رویہ ہے لیکن کسی اصول یا اخلاق کو نہ ماننے والے صدر ٹرمپ سے کسی بھی بے اعتدالی اور لاقانونیت کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کے لیے جس منصوبہ کا اعلان کر رہے ہیں، اس کے تحت غزہ سے 25 لاکھ فلسطینی باشندوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کیا جائے گا کیونکہ ٹرمپ اور ان کے اسرائیلی ہم خیال نیتن یاہو کا ماننا ہے کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ میں دوبارہ آباد کیا گیا تو اس سے حماس پھر سے طاقت ور ہو جائے گی۔ اس صورت حال سے صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کا حل جنگجوئی اور تشدد میں نہیں ہے۔ اگر حماس کو تشدد کی پالیسی ختم کرنا چاہیے تو اسرائیل کو بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقصد سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ غزہ میں جنگجوئی کے دوران اسرائیلی حکومت کی پالیسی کو کسی بھی طرح خود حفاظتی قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ متعدد ممالک، انسانی حقوق کے ادارے اور ماہرین اسے فلسطینیوں کی نسل کشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے اسی الزام میں نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی لیڈروں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں تاہم اب اسرائیل، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں غزہ کی ترقی کے نام پر ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہا ہے جس میں غزہ کو فلسطینیوں سے پاک کیا جائے گا تاہم یہ خواہش مشرق وسطیٰ میں ایک طویل المدت جنگ، انتہاپسندی اور عدم استحکام کا سبب بنے گی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اب غزہ کو خریدنے کی بات کی ہے اور ساتھ ہی حماس کو ختم کرنے کے مقصد سے وہاں سے 25 لاکھ فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کیا غزہ کوئی ایسا خطہ ہے جسے اس کے کسی مالک نے فروخت کرنے کا عندیہ دیا ہے؟ اگر ایسی صورت حال موجود نہیں ہے تو یہ دعوے امریکی طاقت پر غیر ضروری گمان اور تمام عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ حماس کو سزا دینے کے لیے اس خطے میں آباد لاکھوں لوگوں کو جلاوطن کرنے اور ان کی سرزمین خریدنے کی بات کرنا کسی طور قابل عمل اور کسی بھی عالمی ضابطے کے مطابق جائز نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی خطے کے بارے میں صرف وہاں پر آباد لوگ ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ امریکہ کا صدر یا اسرائیلی حکومت اگر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو یہ منصوبہ مزید تباہی اور خرابی کو دعوت دینے کا باعث ہو گا۔یہودیوں کو دوسری صدی عیسوی میں شاہ ہادریان نے بیت المقدس سے نکلنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہوئے۔ دو ہزار سال بعد 1948 میں جبراً فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ اس دوران میں دنیا کے کسی بھی خطے میں یہودیوں کی حکومت قائم نہیں ہو سکی تھی۔ صیہونی تحریک انیسویں صدی میں یورپ میں شروع ہوئی تھی جس کا مقصد ‘اسرائیلیوں کی سرزمین’ پر یہودی ریاست کا قیام تھا۔ یہودی، فلسطینی علاقوں کو اپنی مقدس کتابوں کے حوالے سے اپنی دھرتی قرار دیتے ہیں۔ اس تحریک کا مقصد فلسطینی عربوں کو ان کے علاقوں سے نکال کر یہودیوں کو آباد کرنا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی اور لاکھوں یہودیوں کی ناجائز ہلاکت کے اخلاقی دباو کی وجہ سے یورپ و امریکہ نے اقوام متحدہ کی قرار داد کے ذریعے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اگرچہ اس مقصد کے لیے صیہونی کارندوں کے ذریعے پہلے علاقے میں دہشت گردی اور تشدد کی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ اسرائیل اس وقت جس دہشت گردی کا رونا روتا ہے، درحقیقت خطے میں اس کا آغاز خود اس ریاست کے بانیوں نے کیا تھا۔امریکہ دنیا میںاس وقت واحد سپر پاور کی حیثیت رکھتاہے لیکن وہ تمام دنیا کا نقشہ محض ایک شخص کی خواہش و مرضی کے مطابق ترتیب نہیں دے سکتا۔ کانگرس کے ارکان کو اجتماعی لحاظ سے اس حقیقت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ٹرمپ کے توسیع پسندانہ بیانات سے جو صورت حال پیدا ہوگی، امریکہ کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔اب ٹھوس سفارت کاری اور واشنگٹن کو سنجیدہ پیغام دینے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here