محترمہ موبینہ زیدی صاحبہ
آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ میری تحاریر پر اکثر رائے زنی کرتی ہیں ۔آپ بذاتِ خود ادبی دنیا میں مقام رکھتی ہیں۔ آپ نے میری آج کی تحریر جو میں نے غزہ / فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے بارے میں لکھی ہے اور مسلمانوں کو چند تجاویز دی ہیں اس پر آپ نے میرے اِن جملوں جب تک ملوکیت ، ملائیت اور خانقاہیت ہے مسلمان ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھا ہے مجھے نہیں لگتا یہ چیزیں کبھی ختم ہوں گی اور پیغمبر آناتو بند ہو چکے ہیں ،آپ کے خدشہ کا مختصر جواب ہے جو میں آپ کی وساطت سے تمام مسلمانوں تک پہنچانا چاہتا ہوں اور آرزو مند ہوں کہ ہر باشعور ، باایمان اور با ضمیر مسلمان میری اِن معروضات کو شئیر کرے تاکہ نوجوان نسل حقائق کو جانچ سکے جہاں تک ملوکیت کا تعلق ہے کئی مسلمان ممالک ایران، لیبیا، عراق، اور مصر میں شہنشاہت کا خاتمہ ہو چکا۔ باقی بادشاہتوں کا اختتام بھی قریب ہے۔ بقولِ کسے اب بادشاہ ( King) صاف تاش کے پتوں پر رہ جائیں گے۔ علامہ اقبال نے سچ کہا تھا!
میرسد مردی کہ زنجیرِ غلامان بشکند
دیدہ ام از روزن ِ دیوارِ شما
جوں جوں مسلمانوں میں علم کی روشنی عام ہو رہی ہے اور عوام باشعور ہو رہے ہیں ،ملائیت اور خانقاہیت بھی دم توڑ رہی ہیں۔ اب مسلمانوں کو علامہ اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے روشن فکر اور انقلابی مفکرین کی ضرورت ہے۔ رہا معاملہ ختمِ نبوت کا کہ اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تو سلسلہ ہدایت کیسے چلے گا؟ اِس سوال کا جواب خود اپنی زندگی میں پیغمبرِ اسلام نے دے دیا تھا۔ آپ نے جب حضرت معاذ کو یمن کاگورنر مقرر فرمایا تو ان سے استفسار کیا جو کچھ یوں تھا۔ لوگوں کے مسائل کا جواب کیسے دیں گے-حضرت معاذ نے جواب دیا قرآن و سنت سے۔ آپ نے فرمایا اگر ان مسائل کا جواب قرآن و سنت میں نہ ملے۔ جواب دیا عقل کا استعمال کروں گا۔ یہ جواب سن کر آپ خوش ہوئے۔ گویا عقل دلیلِ کل ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں بار بار عقل کے استعمال پر زور دیا گیا ہے۔ اگر مسلمان اجتہاد سے کام لیتے تو ان کی یہ حالت نہ ہوتی جو آج ہے۔ زبوں حالی ،غلامی،جہالت، غربت،اور ذلت ۔ اگر مسلمانوں میں اتحاد ہوتا، سائنسی کلچر ہوتا، اور مسلمان ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ہوتے تو جس بے دردی سے اِنہیں بوسنیا، میانمار ، کشمیر اور فلسطین میں قتل کیا جارہا ہے کوئی استعماری طاقت اِن مظالم کی جرات کر سکتی تھی؟ ملا اور شیوخ عقل کے خلاف فتوے بازی آج بھی کر رہے ہیں۔ آج غزہ / فلسطین میں مسلمانوں پر جو مظالم اسرائیل ڈھا رہا ہے کیا وہ ایسی انسان سوزحرکت کا سوچ بھی سکتا تھا؟ علامہ اقبال فرما گئے تھے!
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
سلام ہے ان لوگوں پر جو دنیا بھر میں آج غزہ کے شہیدوں اور مظلوموں کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں ۔لیکن سوال تو یہ ہے کون اسرائیل کا ہاتھ روکے؟ کون اسرائیلی وزیرِاعظم فرعونِ دوراں بنیامین نیتن یاہو کی گردن مروڑے؟ سلام ہے ساوتھ افریقہ کے صدر پر جس نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اسرائیل پر جنگی جرائم کا مقدمہ درج کیا۔ کسی مسلمان ملک کو یہ توفیق نہ ہوئی، تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو علامہ اقبال اپنی انگریزی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں عقل اور اجتہاد پر زور دیتے ہیں ۔ قرآنِ مجید آخری کتاب اور محمد صلعم آخری بنی ہیںلیکن حدیثِ رسول پاکۖ ہے علماالامتی کالامنیا بنی اسرائیل ( میری اُمت کے صاحبانِ علم کی مثال بنی اسرائیل کے انبیا جیسی ہے،مولوی اور فقہا حضرات صاحبانِ علم کا ترجمہ علما یعنی مولوی کرتے ہیں اور بزعمِ خویش اپنے آپ کو بنی اسرائیل کے انبیا کے مساوی سمجھتے ہیں۔ بنی اسرائیل حضرت یعقوب کی اولاد کو کہتے ہیں جس میں یوسف، ذکریا ،یحییٰ ، موسیٰ ،ہارون اور عیسیٰ جیسے برگزیدہ پیغمبر ہیں۔ میں نے زندگی میں کئی ایسے جاہل مولوی اور شیوخ دیکھے ہیں جن کے ہاتھ اور پائوں سادہ لوح مرید چومتے ہیں اور ان کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور یہ ایسی غیر انسانی اور غیر شرعی حرکات پر انہیں منع نہیں کرتے بلکہ فرعون بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسے مذہبی اور روحانی شعبدہ بازوں کے بارے میں لسان الغیب حافظ شیرازی نے بجا فرمایا تھا
واعظاں کین جلوہ برمحراب و ممبر میکنند
چون بخلوت میروند آن کاری دیگر میکنند
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی کتاب اقبال اور ملا اِس تلخ حقیقت کی غمازہے کہ کم نظر، کم سواد اور فرقہ باز مولویوں نے اسلام اور مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچایا۔ میری یہ مستند رائے ہے کہ دنیائے اسلام متحد ہو گی۔ اسلام دنیا پر غالب آئے گا ۔اسلام دینِ انسانیت ہے ۔اسلام دینِ عدل ہے۔ جب ملوکیت ، ملائیت اور خانقاہیت کا خاتمہ ہو گا تو اسلامِ حقیقی نافذ ہو گااور بادشاہوں کا اسلام استعماری نیست و نابود ہو جائے گا۔بقول علامہ اقبال
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمتِ رات کی سیماب پا ہو جائے گی
٭٭٭