واشنگٹن(پاکستان نیوز)آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹیٹیوٹ (ASPI) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ چین تقریباً 90 فیصد اہم ٹیکنالوجیز میں عالمی رہنما بن گیا ہے، وہ ڈرون اور سیٹلائٹ سمیت دفاعی ٹیکنالوجیز میں بھی برتری حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ ASPI کے کریٹیکل ٹیکنالوجی ٹریکر رپورٹنگ پروجیکٹ کے تازہ ترین اپ ڈیٹ کے مطابق چین نے بیس سالوں سے بھی کم عرصہ میں عالمی ٹیکنالوجی لیڈر کے طور پر امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ نے 2003ء سے 2007ء تک 64 میں سے 60 ٹیکنالوجیز میں سب کو زیر کیا اور اب 2019ـ2023ء میں بھی 64 میں سے 57 ٹیکنالوجیز میں برتری حاصل کر کے وہ سرفہرست ملک ہے۔ کریٹیکل ٹیکنالوجیز 64 شعبوں کی ایک ایسی باسکٹ ہے جس میں دفاع، خلائی، توانائی، ماحولیات، مصنوعی ذہانت (AI)، بائیو ٹیکنالوجی، روبوٹکس، سائبر، کمپیوٹنگ، جدید مواد اور کلیدی کوانٹم ٹیکنالوجی کے شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔” چین اس صدی کے اختتام تک ایسی ٹیکنالوجی حاصل کر لے گا جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہر میدان میں شکست دینے کے لیے گافی ہو گی۔ تحقیقی مقالوں اور تکنیکی ترقی کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرکے، ٹریکر نے طے کیا کہ چین اب کوانٹم سینسرز، اعلیٰ کارکردگی والے کمپیوٹنگ، گریویٹیشنل سینسرز، خلائی لانچ، اور جدید مربوط سرکٹ ڈیزائن اور فیبریکیشن میں سرفہرست ہے۔ جبکہ امریکہ صرف کوانٹم کمپیوٹنگ، ویکسین، نیوکلیئر میڈیسن، چھوٹے سیٹلائٹ، ایٹمک کلاک، جینیاتی انجینئرنگ، اور قدرتی زبان کی پروسیسنگ میں برتری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کے لیئے پریشان کن بات یہ ہے کہ چین نے ہر ایک جدید ٹیکنالوجی میں سبقت حاصل کی جس کے محققین نے “ہائی رسک” کے طور پر درجہ بندی کی ہے، یعنی ایک ہی قوم ٹیکنالوجی پر دنیا بھر میں ایک موثر اجارہ داری قائم کر سکتی ہے۔ رپورٹ میں مذید کہا گیا ہے کہ خطرے کے طور پر نئی درجہ بندی کرنے والی ٹیکنالوجیز میں دفاعی ایپلی کیشنز، جیسے ریڈار، جدید طیاروں کے انجن، ڈرون، تعاون کرنے والے روبوٹس اور سیٹلائٹ پوزیشننگ اور نیویگیشن کے ساتھ بہت سی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت ٹیکنالوجی کے اہم شعبوں میں بھی بڑی ترقی کر رہا ہے۔ درحقیقت بھارت نے امریکہ سے کئی اہم شعبوں میں دوسرے نمبر کا ٹائیٹل چھین لیا ہے۔ برطانیہ براہ راست تنزلی کا شکار ہے، آٹھ اہم ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرفہرست پانچ ممالک میں سے باہر ہے۔ کچھ دیگر ٹیک اور صنعتی پاور ہاؤسز، جن میں جرمنی، جنوبی کوریا اور جاپان شامل ہیں، 2023 سے نسبتاً مستحکم ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والے محققین نے اہم ٹیکنالوجیز میں چین کی نمایاں پیش رفت کا ذمہ دار بھاری حکومتی مالی معاونت اور اعلیٰ کارکردگی والے تعلیمی اداروں جیسے چائنیز اکیڈمی آف سائنسز (CAS) کو قرار دیا۔ مصنفین نے مغربی جمہوریتوں کو 1990 کی دہائی کے آخر میں حاصل کردہ تکنیکی لیڈز سے مطمئن ہونے اور جدید تحقیق کے لیے ناکافی فنڈنگ اور مہارت کا ارتکاب کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔