قارئین وطن ! بہت سال ہوتے ہیں مجھے سانپ پالنے کا شوق ہو گیا بس پھر کیا تھا اِرد گرد بہت سے سانپ پال لئے اْن کو دودھ پلاتا اْن کے سروں پر ہاتھ پھیرتا کچھ راستے میں مرتے رہے کچھ جوان ہوتے رہے ہم اپنی فطرت سے مجبور وہ اپنی فطرت سے مجبور ہم اْن کی پرورش کرتے رہے اور وہ ڈھنگ مارتے رہے بقول محمد بخش!
سنپا دے پْت کدی میت نہ ہوندے
پھاویں لکھا من دودھ پیا دئیے
کھارے کھوں کدی مٹھے نہ ہوندے
پھاویں لکھا من گڑ پا دئیے
لیکن سب سے زہریلا سانپ وہ ہوتا ہے جو زیرِ آستیں چھپا ملتا ہے ،میرے ایک پرانے سیاسی مینٹر کرامت علی خان مرحوم ہوا کرتے تھے یہ وہی کرامت علی خان ہیں جنہوں نے ہم پر بلکہ پوری قوم پر نواز شریف مسلط کیا کہ یہ بے نظیر کے مقابلے میں ” پاکستان میڈ ” ہے نے ایک شعر سنایا !
ہزار سانپ راہ زندگی میں ملتے ہیں
خدا کرے کہ کوئی زیرِ آستیں نہ ملے
حالانکہ میں سانپوں سے کھیلنے اور پالنے والا دودھ پلانے والا لیکن جب یہ زیر آستیں ملتے ہیں تو ڈر جاتا ہوں کہ زیرِ آستیں سانپ سب سے خطرناک ہوتے ہیں ۔
قارئین وطن ! کالم لکھنے بیٹھا تو وطنِ عزیز کی تازہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اپنا آئی پیڈ کھولا تو واقعی ایک زیرِ آستین سانپ ملا جانتے ہیں وہ کون تھا ” حسین حقانی” اللہ اللہ میں خوف سے ڈر گیا اس سے پہلے کے میں آئی پیڈ بند کر دیتا اْس کے ساتھ ایک خوبصورت دوشیزہ کی تصویر دیکھی تو تھوڑا سا ماتھا ٹنکا جب میں نے اْن کی تصویر پر انگلی ماری تو حسین حقانی ” گْل بخاری” نامی صاحبہ کو انٹرویو دے رہا تھا میں اس سانپ کو دیکھ کر اس سوچ میں پڑ گیا کہ سردار نصراللہ جس طرح ہماری آستین میں سانپ نکلتے ہیں کیا مملکت کی بھی آستین ہوتی ہے ہائے اللہ ” پاکستان کی آستین” میں اتنا بڑا اور زہریلا سانپ۔ اس سے پہلے کے میں زیرِ آستیں اس سانپ کی طرف بڑھوں تھوڑا سا تعارف ضروری ہے ویسے تو وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ سانپوں اور بھیڑیوں سے زمانہ آ شنا ہوتا ہے ۔
قارئین وطن! یہ سنہ 1998 کا واقعہ ہے میں اْس وقت امریکہ میں ” پاکستان مسلم لیگ ” کا صدر تھا اور میاں نواز شریف پنجاب مسلم لیگ کا صدر تھا اور موصوف اْس کا سیکرٹری و انگریزی کا اطالیق جب نواز میری دعوت پر امریکہ آیا تو اس کے بزرگو ں کا تعلق ” جماعت احرار” سے تھا جو پاکستان کی اور قائد اعظم محمد علی جناح کی سخت مخالف تھی اور ان کی جماعت کے صدر نے تو یہاں تک میرے قائد کو کافرِ اعظم کا خطاب دیا ۔ پاکستان کا ظرف کیسے کیسے غدار زیر آستیں پالے۔پاکستان کے قیام کے بعد حسین حقانی کے بڑوں نے پھر جماعت اسلامی سے ناطہ جوڑا یہ بھی پاکستان مخالف تھی لیکن تھی کرتبی ایسا نظریہ پاکستان پر قبضہ جمایا کہ بڑے بڑے کرتبی بھاگ گئے ۔
قارئین وطن ! آئیے چلتے ہیں حقانی کے انٹرویوں کی طرف اس میں کوئی شق نہیں کے چاپلوسی اور اپنی خوش زبانی کی وجہ سے اس نے سینے پر بڑے بڑے عہدوں کے پر سجائے ہوئے ہیں یہ امریکی سی آئی اے کی نوکری سے پہلے امریکہ میں پاکستان کا سفیر رہا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کہ زہر میں کوئی خاص اثر ہے کہ جن کی ننگی تصویریں ہوائی جہازوں سے پھنکوائیں وہی اس کے مدعا نکلے مجھے خود بتایااس نے نواز شریف کو موٹی موٹی گالیاں دیتے ہوئے کہ اس نے ایسے میرے چوتڑ کٹوائے کہ اس کو شرم بھی نہ آئی کہ میں اس کا استاد بھی تھا آج وہ بھی اس کے گیت گاتا ہے اور یہ اس کے ۔ حسین حقانی گل بخاری جو برطانیہ میں مقیم ہے اور اسی کماش کی جرنلسٹ ہے بلکہ یوں کہہ لیجئے قبلہ ” نجم سیٹھی” جو بیرونی آقاؤں کے لئے کام کرتے ہیں اور پاکستان کو گالیاں نکالنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں وہی بھارتی زبان وہی احراری لہجہ افواج پاکستان کو ہر معاملے میں ذمہ دار ٹہرانہ یقیناً عمران کی حکومت تو ایک نظر بھی نہیں بھاتی اب عمران خان طالبان خان شیخ رشید شیدا ٹلی یہ اس دانشور کی زبان تھی بقول پروفیسر آفاق خیالی کے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا دانشور ہے یہ امریکن اس کی بات سنتے ہیں ۔ ہم کب کہتے ہیں کہ امریکن اس کی بات نہیں سنتے ،ایسے ہی لوگوں کی بات سنی جاتی ہے جو میر جعفر ہوتے ہیں انٹرویو کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کو جرنلوں پر اتنا پریشر ڈالنا چاہئے کہ وہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کریں اور اپنے مفادات کی رکھوالی کرنے والوں کو براجمان کریں،گل بخاری صاحبہ کے متعلق صرف اتنا پتا چلا کہ وہ روشن جمال روشن خیال پاکستان سے 2018 میں اپنی روشن خیالی کو پروان چڑھانے برطانیہ آ گئیں تھیں۔
کہ وہ وہاں بھارتی جریدے کے لئے کام کریں اور کھل کر پاکستان کے بارے اپنا زہر اُگلتی رہیں ، موصوفہ کسی بہت بڑے پاکستانی سابقہ فوجی جرنل کی صاحبزادی ہیں ،پورے انٹرویو کے دوران گفتگو سے زیادہ ان کو اپنی زیبائش و آرائش کا خیال تھا ، اب دیکھنا یہ ہے کہ کب سحر ہوگی اور کب پاکستان کو ان میر جعفروں سے نجات ملے گی۔
قارئین وطن ! کالم لکھتے وقت خیال ہی نہیں رہا کہ اس کے چھپنے تک عید سعید بھی آن پہنچی ہے میری جانب سے تمام قارئین وطن اور اہلَ وطن کو پھیکی پھیکی عید مبارک ،پھیکی اس لئے کہ ہر گھر تو سوگوار ہے کرونا نے کسی گھر کو بخشا ہی نہیں، اللہ پاک اپنے حضور دعا مانگنے والوں کی دْعایں قبول فرما پاکستان کو آمن کا گہوارہ بنا کرونا جیسے موذی مرض سے نہ صرف پاکستان بلکہ ہمارے ہمسائے اور پوری دنیا سے اس کو ختم فرما، عمران کی حکومت کو دوام بخش اور اس کو ہمت دے کہ وہ پاکستانی قوم کو لوٹنے والوں کو عبرت کا نشان بنائے ۔ہماری عدلیہ میں بیٹھے ججوں کو انصاف کا ترازو پکڑنے کی صلاحیت فرما اور ہماری سلامتی کے ذمہ داروں کو ملک کی نظریات اور سرحدوں کی حفاظت کی مکمل طاقت فرما ،آمین!
٭٭٭