!!!مسئلہ فلسطین کا تاریخی اور حالیہ پس منظر

0
473
کوثر جاوید
کوثر جاوید

یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مقدس یروشلم کی حیثیت، اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کا مرکز ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم ان کی آئندہ ریاست کا دارالحکومت بن جائے اور بیشتر ممالک اور اور اقوام متحدہ کی قراردادیں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی گردانتی ہیں۔اسرائیل بائبل، اس سرزمین سے اپنے تاریخی تعلقات، سکیورٹی میں رکاوٹوں اور قانونی دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے اس سے اختلاف کرتا ہے۔ پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ انخلا کے خطرے سے دوچار فلسطینیوں میں سے بہت سے کرد جیسے مہاجر ہیں، یا ان کے آباؤ اجداد نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے پہلے اس علاقے میں آئے تھے۔اسرائیلی پولیس اور فلسطینی مظاہرین کے درمیان بیت المقدس (یروشلم) میں سنیچر کو تازہ جھڑپوں میں 50 سے زیادہ فلسطینیوں کے زخمی ہونے کے بعد دو دن میں پولیس کے ہاتھوں زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 250 سے بڑھ گئی ہے۔ پولیس کے مطابق اب تک تصادم میں 19 اسرائیلی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ سنیچر کو جھڑپوں کا مرکز بیت المقدس کا پرانا شہر رہا اور یہ تصادم اس دن ہوا جب ہزاروں فلسطینی مسلمان لیلة القدر کے موقع پر مسجدِ اقصیٰ میں عبادت کے لیے جمع ہو رہے تھے۔ تصادم میں فلسطینی نوجوانوں نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا اور پولیس کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کو توڑ پھوڑ دیا جبکہ پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر ربر کی گولیاں چلائیں، سٹن گرینیڈ پھینکے جبکہ انھیں منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن بھی استعمال کی۔
اس سے قبل جمعے کو یروشلم میں ہی ہونے والی جھڑپوں میں اسرائیلی پولیس کی جانب سے چلائی جانے والی ربڑ کی گولیوں سے 200 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے تھے جبکہ پولیس کے مطابق اس کے 18اہلکار بھی زخمیوں میں شامل ہیں۔ جھڑپوں کے بعد مقامی ہسپتالوں میں زخمیوں کے لیے جگہ کم پڑنے کے بعد ہلال احمر نے ایک فیلڈ ہسپتال بھی قائم کیا تھا۔ یہ جھڑپیں ایک ایسے وقت ہوئی ہیں جب شیخ جراح کے علاقے سے فلسطینی خاندانوں کی ممکنہ بیدخلی کے معاملے پر سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اسرائیل کی سپریم کورٹ اس معاملے پر پیر کو ایک معاملے کی سماعت بھی کر رہی ہے۔ فلسطینی میڈیکل سروس کے مطابق جمعے کو زیادہ تر افراد مسجد اقصیٰ کے صحن میں اس وقت زخمی ہوئے جب اسرائیلی پولیس نے ربڑ کی گولیوں اور سٹن گرینیڈز کا استعمال کیا۔ اس کارروائی کا نشانہ وہ فلسطینی بنے جو اہلکاروں پر بوتلیں اور پتھر پھینک رہے تھے۔ یہودی آبادکاروں اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ واقعات کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس میں خدشہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی اس زمین سے نکال دیا جائے جس پر یہودی آبادکار اپنی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں۔ یروشلم کے پرانے شہر میں واقع مسجد اقصیٰ نہ صرف مسلمانوں کے لیے سب سے قابل احترام مقامات میں سے ایک ہے، بلکہ یہودیوں کے لیے بھی یہاں مقدس مقام بھی ہے جسے ٹیمپل ماؤنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔مسئلہ فلسطین کا ہمیشہ سے مرکز رہنے والا علاقہ شیخ جرہ محلہ دمشق دروازے کے قریب پرانے یروشلم کی دیواروں کے بالکل باہر واقع ہے۔اس علاقے میں ہوٹلوں، ریستوراں اور قونصل خانے کے علاوہ فلسطینیوں کے بہت سے مکانات اور رہائشی عمارتیں بھی شامل ہیں۔مشرقی یروشلم 1967 میں اسرائیل کے قبضہ کرنے سے قبل اردن کے ساتھ ملحق تھا اور اس کو عالمی برادری کے ذریعہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ یہودی آباد کاروں نے عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر محلے کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہاں رہنے والے یہودی خاندان 1948 کی جنگ کے دوران فرار ہو گئے تھے۔اردن نے 1948 میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی رہائش کے لیے شیخ جرح کے پڑوس میں رہائش گاہ بنائی تھی اور لیز کے معاہدے اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔اردن کی وزارت برائے امور خارجہ کے ذریعے شائع شدہ دستاویزات کے مطابق یہ دستاویزات ان 28 خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جو شیخ جرح کے پڑوس میں 1948 کی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو گئے تھے۔ ترک اناطولیہ نیوز ایجنسی نے محلے کے رہائشی محمد الصباغ کے حوالے سے بتایا ہے کہ رہائشیوں کی مشکلات سنہ 1972 میں اس وقت شروع ہوئیں جب سیفارڈک یہودیوں کی کمیٹی اور اسرائیل کی کنیسیٹ کمیٹی (اشکنازی یہودیوں کے لیے بنائی گئی کمیٹی) نے دعوی کیا تھا کہ وہ اس علاقے کے مالک ہیں جس پر 1885 میں مکانات بنائے گئے تھے۔
یروشلم میں فلسطینی حقوق کے قومی اتحاد کے مطابق، جولائی 1972 میں، یہودیوں کی ان دونوں کمیٹویوں نے عدالت سے ‘دوسروں کی املاک پر غیر قانونی حملے’ کی بنیاد پر محلے کے چار خاندانوں سے گھر خالی کرانے کو کہا۔سنہ 1970 میں اسرائیل میں قانونی اور انتظامی امور کا قانون نافذ کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 1948 میں مشرقی یروشلم میں اپنی جائیداد کھو جانے والے یہودی اس کی بازیابی کروا سکتے ہیں۔اسرائیلی امن تحریک کا کہنا ہے کہ ‘یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اسرائیلی قانون (1950 میں غیر حاضری کا پراپرٹی لا) 1948 میں اسرائیل میں اپنی جائیداد کھو جانے والے فلسطینیوں کو اس کی بازیابی کی اجازت نہیں دیتا ہے اور ان کے اثاثوں کی ملکیت ریاست کو منتقلی کرنے کی اجازت ہے۔’ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مشرقی یروشلم میں دو لاکھ سے زیادہ یہودی آباد کار آباد ہیں جہاں فلسطینیوں کی آبادی تین لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ فلسطینی نبیل ال کرد کا خیال ہے کہ انھیں مشرقی یروشلم چھوڑنے پر مجبور کرنا جہاں وہ 1950 کی دہائی سے رہائش پذیر ہیں، موت سے بھی بدتر انجام کی نمائندگی کرتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here