کل کی بات ہے کے ایک اللہ کے نیک بندے سے بات ہوئی بہت ایماندار اس اللہ کے بندے نے کہا جب کبھی مایوس نہیں ہوتا ہمیشہ اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہوں۔جب اللہ کسی کے ساتھ ہو تو اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔چاہے ساری دنیا اس کی مخالف ہو اور جب اللہ اس کے ساتھ نہ ہو تو پوری دنیا بھی اس کے ساتھ ہو تو چیزیں پگڑتی رہتی ہیں۔مایوسی واقعی کفر بھی ہے اور انسان کے لیے نقصان دہ بھی ہے مایوسی میں ہی لوگ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں مایوسی میں ہی ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔اور مایوسی میں ہی اپنی اور دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔آج ایک خاتون کا انٹرویو ریڈیو میں آرہا تھا وہ ٹی وی میں ٹاک شو کرتی ہیں سات کھانا پکانے کی کتابوں کی مصنف ہے اور ایک بیکری اور ریسٹورنٹ کی مالک اس کا کہنا تھا کے میری شادی اٹھارہ سال کی عمر میں ہوئی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی بچے بھی ہوگئے شوہر سے بھی تعلقات صحیح نہیں رہے۔انتہائی پریشانی میں رہی اتنی پریشان کے دور گھبراہٹ کے دورے پڑنے لگے پھر ایک دن اس نے کہا اسے مایوسی کے اس دلدل سے نکلنا ہوگا۔اس نے ہمت محنت سے دن رات محنت کی اور آج وہ امریکہ میں اس مقام پر ہے کے کتابیں لکھ رہی ہے اور ٹی وی میں انٹرویوز دے رہی ہے۔ایسی بہت ساری کہانیاں ہمارے اردگرد ہیں جو ہم کو جینا سکھاتی ہیں مگر سب سے پہلے تو ہمارے مذہب نے ہی ہم کو یہ سکھا دیا ہے کے جینا ہے تو مایوس ہو کر نہ جیئو ورنہ کفر کا الزام لگ جائے گا۔آج ہی کی بات ہے ایک امریکن Hispanic خاتون سے بات ہورہی تھی وہ بتلا رہی تھی کے اس ویک اینڈ پراس کی دوست کی بیٹی جس کا ایک بیٹا ہے اس کے ہاں بچے کی کوئی مذہبی تقریب تھی جس میں جانا پڑا۔کیونکہ وہ ان لوگ سے ناراض تھی اس لیے جانا نہ چاہتی تھی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کے لڑکی کی عمر صرف سترہ سال ہے اور وہ نہ صرف ایک بیٹے کی ماں ہے بلکہ دوسرا بچہ بھی ہونے والا ہے۔اس لیے یہ لوگ ناراض ہیں کے بچی کو کچھ تو عقل سکھاتے اب اتنے چھوٹے بچوں کی پرورش ظاہر ہے۔کے بچے کے نانا نانی کے ذمے ہی آئے گی۔کیونکہ ماں تو خود سترہ سال کی ہے اس خاتون نے بتایا کے وہ اپنی لڑکی پر بہت نظر رکھتی ہے۔خود کی زندگی بھی بے سکون اور بچے بچوں کی بھی جو پڑھنے لکھنے بے فکری سے رہنے کی عمر ہے وہ سوال جواب میں گزر جائے کیونکہ باہر کی عمر ہے وہ سوال جواب میں گزر جائے کیونکہ باہر کی آزادی کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔مایوسی کی انتہا ہے کے معاشرے کی آزادی کو کچھ نہیں کہہ سکتے اپنے بچے کی زندگی ہی تنگ کرنی پڑتی ہے وہ بھی اس لیے نہیں کے دل میں خوف خدا ہے یا کسی سزا کا خوف بلکہ ڈریہ ہے کے نوعمر لڑکے لڑکیاں جن کی ابھی ہائی سکول کی تعلیم بھی ختم نہیں ہوئی جو اپنی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے وہ اپنے بچوں کی ذمہ داری کیسے اٹھائیں گے بوجھ تو والدین کو ہی اٹھانا پڑیگا جو خود محنت کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔اکثر اوقات ہمارے معاشرے پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے یہ لوگ کہتے ہیں کے ہمارا معاشرہ عورتوں پر اپنی پابندیاں عائد کرتا ہے کے وہ جینے کا مزا کھو دیتی ہیں مگر آزاد معاشرے میں بھی اتنی آزادی ہے کے عورت اس وقت جینے کا مزا کھو دیتی ہے جب وہ نوعمری میں ہی اکیلی کسی بچے کی ذمہ داری اٹھا رہی ہوتی ہے یا غلط راستوں پر چل کر تعلیم سے محروم رہتی ہے۔یا پھر آزادی کابیجا استعمال کرکے اپنی زندگی شراب ڈرگ اور غلط لوگوں کے ہاتھوں میں پڑ کر تباہ کرتی ہے۔اپنا اور اپنے بچوں کا خرچہ اٹھانے کے لیے نائٹ کلب میں ڈانس کرتی ہے۔عورت ہر اس جگہ نقصان اٹھاتی ہے جہاں وہ معاشرے کے ہاتھوں اپنی ناسمجھی یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے کھلونا بنتی ہے۔اور پھر مایوسی کا شکار ہو کر جینے کا مرزا کھو دیتی ہے چاہے معاشرہ کیسا بھی ہو آزاد یا پابند مایوس ہو کر نہ جیئں۔
٭٭٭