وحدت قوم، پہلی ترجیح

0
306
جاوید رانا

قارئین کرام جب ہمارا یہ کالم آپ تک پہنچے گا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے محبان وطن کی طرح آپ بھی پاکستان کی آزادی کی خوشیوں سے سرشار وطن سے محبت کا اظہار کرنے میں مصروف ہوں گے۔ ہماری جانب سے پاکستان کے 75ویں یوم آزادی کی دلی مبارکباد قبول فرمائیں۔ مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال کے تصور اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی بے مثال قیادت ، مسلمانان برصغیر کی جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر دنیا کی اسلام کے نام پر قائم ہونے والی واحد مملکت خداداد نے اس عرصے میں جس قدر نشیب و فراز دیکھے ہیں ان سے ہر پاکستان بخوبی آگاہ ہے۔ تفصیل میں جانے گریز کرتے ہوئے محض اس نکتہ پر اکتفا کرتے ہیں کہ بے سروسامانی اور 2ملین سے زائد مہاجرین کو اپنی آغوش میں لینے والی یہ مملکت الحمد للہ آج سات عالمی نیوکلیائی طاقتوں میں سے ایک ہے، اس کی عسکری قوت کی اہمیت و کارکردگی کو عالمی سطح پر بہترین قرار دیا جاتا ہے اور اس کی افرادی قوت دنیا بھر میں اپنی صلاحیت، محنت اور کامیابی سے ہر خطہ زمین پر خود کو منوا رہی ہے۔ اس تمامتر حقیقت اور خطے میں جغرافیائی و اسٹرٹیجک اہمیت کے باوجود بعض ایسے عناصر و حقائق ہمیں اس امر پر سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ تمام تر خواص و خوبیوں کے باوجود ہم ایک قوم کی تصویر کشی اور عالمی منظر نامے میں اپنی اہمیت منوانے سے کیوں قاصر ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی تعمیر و ترقی میں ان کی قیادت خصوصاً سیاسی اشرافیہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو قائد اعظم کی رحلت اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستانی سیاست کی مثال اس لونڈی کی بنادی گئی تھی جسے ہر زور آور اپنے حساب سے استعمال کرتا رہا۔بیورو کریسی و اسٹیبلشمنٹ کا کھیل ایسا تھا کہ ہر چھ مہینے میں وزیراعظم بدلے جاتے تھے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستانی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے طنز کیا تھا کہ جتنی تیزی سے پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہوتے ہیں اتنی تیزی سے میں اپنی دھوتی بھی نہیں بدلتا۔58ء میں ایوب خان کا مارشل لاء لگا۔ دس سال اقتدار کے بعد انتخابات ہوئے لیکن سیاسی بھوک کے متوالوں اور بھارتی سازش کے نتیجے میں آدھا ملک علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ بقیہ ملک جو رہ گیا تھا 77ء میں مارشل لاء کا نشانہ بنا۔ خدا خدا کرکے 88ء میں جمہوریت بحال ہوئی۔
جمہوریت کی بحالی کے بعد دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے جو کھل کھیلے وہ ہماری سیاسی تاریخ کا کچھ اچھا باب نہ ہو سکا۔ فوج کی گود سے سیاسی جنم لینے والے کاروباری نام نہاد مسلم لیگی قائد نے اپنی ضدی فطرت اور نخوت کے باعث فوج سے ہی پنگا لے لیا اور دربدر ہوا۔ ایک بار پھر فوج کا اقتدار قائم ہوا جو پاکستان کی دوبار وزیراعظم رہنے والی خاتون شخصیت کی شہادت پر ختم ہوا۔ بعد کی سیاسی تاریخ اور دو سیاسی جماعتوں کا اقتدار کرپشن اور لوٹ مار کی بدترین مثال رہا۔ ملک اور عوام کی فلاح ، سلامتی اور تقدیس کو پیش نظر رکھنے اور راست اقدامات کرنے کے برعکس اپنے اقتدار سے ذاتی مفادات کے حصول اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اپنے مفادات و اغراض کی راہ میں رکاوٹ تصور کرنے والے ریاستی اداروں کو مطعون کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نتیجتاً2018ء میں اپنے منفی کرتوتوں کے باعث اقتدار سے محروم ہوئے اور ایک نئی سیاسی قیادت برسر اقتدار آئی۔ تبدیلی کی دعویدار اس حکومت نے اپنے قائد کے منشور اور عزم کے مطابق جب ماضی کے ان حکمرانوں کی گرفت کی تو اس حکومت کے خلاف منفی تحاریک اور پروپیگنڈے کے ذریعے ملک میں بے چینی اور انتشار برپا کرنے کی ہر کوشش کی گئی۔ اتحاد بنے، دعوے کئے گئے، ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے موجودہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار قرار دینے کی کوششیں اور قوم کو بھٹکانے کی کوششیں کی گئیں لیکن جسے خدا رکھے، اسے کون چکھے کے مصداق ان ملک دشمنوں کی ساری تدبیریں ضائع گئیں اور غیر فطری اتحاد اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعویدار پارٹی کا عدالت عظمیٰ سے نااہل اور مفرور قرار دیا گیا سربراہ بیرون ملک بیٹھ کر نہ صرف موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زہر اگل رہا ہے بلکہ پاکستان دشمن قوتوں کے ایجنٹوں سے ملاقاتیں کرکے وطن دشمنی کی سازشوں میں مصروف ہے اور یہاں اس کی بیٹی اور بعض پٹھو ساتھی مزاحمتی اور فوج مخالف موقف کو اپنا بیانیہ بنائے ہوئے ہیں جبکہ اس نااہل قائد کا بھائی اور پارٹی کا صدر مفاہمتی اور مصالحتی موقف کے لئے اپنی کوششیں کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔
ہم اپنے گزشتہ کالم میں اس جماعت کے دہرے بیانیوں اور فوج مخالف شور شرابے کے حوالے سے تحریر کرچکے ہیں کہ خود کو ملک خصوصاً پنجاب کی سب سے بڑی اور مقبول گرداننے والی یہ پارٹی نہ صرف اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے بلکہ خود اس پارٹی اور اس خانوادے یعنی شریف فیملی میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اس کی واضح مثال گزشتہ ہفتہ میڈیا میں اس کے اہم عہدیداروں کے نزاعی اور متضاد بیانات سے ظاہر ہو رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بلوچستان میں اس کے اہم عہدیداروں اور سابق گورنر ریٹائرڈ جنرل اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کی دوسری بڑی سیاسی اپوزیشن پارٹی میں شمولیت اور اپنی پچھلی جماعت کے بارے میں اظہار خیال اس کی گواہی ہے۔ پاکستانی سیاست کے حوالے سے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فی زمانہ حکومتیی جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتیں داخلی و خارجی حالات اور خطہ کی معروضی صورتحال کے حوالے سے کسی اقدام یا یکجہتی ، لائحہ عمل اور یکساں موقف کے برعکس ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی و پروپیگنڈے پر اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کررہی ہیں۔ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام سیاسی قوتیں حکومت اور دفاعی اداروں کے ساتھ قومی مفاد اور ملک دشمنوں کی سازشوں کے خلاف آہنی دیوار بن جائیں۔ یہ وقت اس کا متقاضی نہیں کہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ملک کی دفاعی قوت سے پنجہ آزمائی کی جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کی ریاستی ، حکومتی ، دفاعی اور دیگر اسٹریٹیجک پالیسیوں میں دفاعی اداروں ، ایجنسیز کی شمولیت نہ ہوتی ہو۔ پنیٹاگون، موساد، کے جی بی، را، این ڈی ایس ، پیپلز آرمی وغیرہ سمیت متعدد مثالیں ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں تو اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیز پاکستان کے مفاد میں کوئی اقدام کرتی ہیں تو انہیں بلاوجہ اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد کے لئے ہدف بنانا کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ یہ وہی محافظ اور وطن کے سپوت ہیں جو ہر دم ہر گھڑی ہماری سرحدوں اور جانوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر آمادہ رہتے ہیں بلکہ مصیبت و آفات کی ہر گھڑی میں قوم کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ویسے بھی وطن کی سلامتی کے لئے قوم کی وحدت کی مضبوط زنجیر قوم کے تمام طبقات کی کڑیوں سے بنتی ہے اور اگر ایک کڑی بھی علیحدہ ہو تو زنجیر ٹوٹنے کا خدشہ ہو جاتا ہے۔
وحدت قوم کی کوئی نہیں تدبیر الگ ایک کڑی ٹوٹے تو ہو جاتی ہے زنجیر الگ
کیا یوم آزادی پر قوم کا اتحاد، ہمارے سیاسی قائدین کی ترجیح ہو سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here