پاکستان کی معیشت برُی طرح لڑکھڑانے کے بعد ایک بار پھر آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہے، بچپن سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، آئی ایم ایف کو اللہ حافظ بول دیں گے، مگر پاکستانی معیشت کی حالت یہ ہے کہ ہر حکومت حلف اٹھانے کے بعد دوسرا کام آئی ایم ایف سے ملاقات کا کرتی ہے۔ دراصل یہ پاکستانی معیشت کی اہم ضرورت بن کر رہ گئی ہے، اس میں سبھی حکومتوں نے اپنا حصہ ڈالا اور آج آئی ایم ایف کے بغیر پاکستانی معیشت ایک ایسے بیمار کی صورت نظر آتی ہے، جو ایک قدم بھی اس ادارے کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا، گزشتہ روز اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ جس کے مطابق آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ فنڈ پروگرام کے لیے حکومت کو اضافی اقدامات کرنا ہوں گے، یہ اضافی اقدامات دراصل حکومت پر پٹرول اور بجلی کی قیمتوں کو بڑھانے کا مطالبہ ہے، درحقیقت قیمتیں بڑھانے سے مطلب اس سبسڈی کو ختم کرنا ہے جو حکومت بجلی اور پٹرول کی مد میں دیتی ہے جس کے بعد بجلی ٹیرف میں بھی 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کا امکان ہے، آئی ایم ایف کے پاکستان میں ریذیڈنٹ چیف ایستھر پیریز روئزنے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ بجٹ 2022-23 کو مضبوط کرنے کے لیے اضافی اقدامات کرے تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کے بنیادی مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ جمعے کو قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ ڈرافٹ کو ہم نے نوٹ کیا ہے جبکہ حکام سے آمدنی اور اخراجات کے حوالے سے مزید وضاحت کے لیے مذاکرات جاری ہیں تاہم، ابتدائی طور پر لگتا ہے کہ بجٹ کو مضبوط بنانے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
اگر آئی ایم ایف کے ان تمام مطالبات کو دو چار دن کی نظر میں جائزمان لیا گیا تو مستقبل میں پاکستان میں مہنگائی کا طوفان اٹھے گا وہ شاید پاکستان نے اپنی تاریخ میں کبھی نہ دیکھا ہو۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو شاید مہنگائی کی بڑھتی ہوئی اس صورتحال کے سبب مرنا بھی آسان نہیں ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان کی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو واقعی کوئی ایسا ملا مل جائے جو ایمانداری سے اسے پار لگا دے۔
٭٭٭