عمران خان سعودیہ کے تین روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے حیرت کی بات یہ ہے کہ محمد بن سلیمان نے انکا خود نفس نفیس استقبال کرکے مبصرین کو حیرت میںڈال دیاحالانکہ پچھلے دورے میں ایک غیر اہم وزیر/گورنر نے وزیراعظم پاکستان کا استقبال کیا تھاجسے ایک لحاظ سے پاکستان کی وزارت خارجہ نے ہزہمت آمیز رویہ گردانا تھا تو یہ ایک لعنتی رویہ میں تبدیلی کیسے آئی ہے؟صدر ٹرمپ کی شکست کے بعد بائیڈن حکومت نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی تجدید کا فیصلہ کیا ہے جس پر بات چیت شروع ہوچکی ہے۔دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی نئی حکومت کی تشکیل کی کوشش بھی ناکام ہوچکی ہے ،شہزادہ محمد بن سلیمان بھی سمجھ گئے ہیں کہ اب انکے لئے نئے اتحاد بنانا نہایت ضروری ہوگیا ہے۔سیاسی حلقوں میں یہ بھی افواہ سرگرم ہے کہ میاں نوازشریف نے ایک بار پھر سعودی عرب کی مدد کیلئے درخواست ڈال دی ہے۔پی ڈی ایم کے تتر بتر ہونے کے بعد میاں نوازشریف خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ادھر شہزادہ محمد بن سلیمان بھی ایک کمزور پوزیشن میں ہیں۔انکا پہلا قدم تو یہ ہے کہ انہوں نے سعودی افواج کو یمن سے نکالنے اور ہوائی حملوں کو فوراً بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔سعودی ایران تعلقات میں بہتری کے خواہشمند بھی ہیں جس کے لئے وہ پاکستان کی مدد چاہتے ہیں۔اس بدلتی صورتحال میں شہزادہ بن سلیمان چاہتے ہیں کہ افواج پاکستان کی دردسری میں کمی ہو اور عمران خان راضی ہوںکہ نواز شریف کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بدعنوانی کے مقدمات کو عدالتوں پر چھوڑ کر نوازشریف سے بات کریں جس کے بدلے میں نوازشریف انہیں اپنی مدت پوری کرنے میں کوئی روڑے نہ اٹکائیں اور احتجاج کی آگ کو آئندہ انتخابات تک ٹھنڈی کردیں گے، عمران خان اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کے بعد انتخابات کرائیں جس میں نواز شریف کو انتخابات میں شامل ہونے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی،اس لئے اب ن لیگ کا جوش بھی کچھ کچھ ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اب تھک گئی ہے کہ آخر کب تک خان صاحب کی حکومت کو ہتھیلی دیتے رہیں گے۔کرونا نے بھی پاکستان کی مالی حالات کو اور مخدوش کر رکھا ہے اور ادھر پچھلے دنوں سعودی حکومت بھی نالاں ہو کر مالی امداد سے ہاتھ کھینچ گئی تھی۔اسٹیبلشمنٹ بھی اس کے حق میں ہے کہ سعودی حکومت کو راضی کیا جائے اور میاں نوازشریف کو پاکستانی سیاست میں دوبارہ ان کیا جائے۔اس حکمت عملی کو عجلت میں عملی جامعہ نہ پہنایا جائے تاکہ موجوددہ حکومت کی ساکھ کو شدید جھٹکا بھی نہ لگے اور مفاہمت کا دروازہ کھولنے کا عمل شروع ہوجائے۔زرداری صاحب کی پی پی پی نے تو پہلے ہی اپنا راستہ الگ کرکے میاں صاحب کو کمزور کردیا ہے اور ملک گیر احتجاج کے عمل کو بھی سست رو کر دیا ہے ادھر عمران خان کی سیاسی پوزیشن یا ساکھ بھی دن بدن گرتی جارہی ہے۔اس لئے سعودی مفاہمت فارمولا ان کیلئے ایک باعزت راستہ ہوگا۔
ادھر شہبازشریف کو عدالتی احکامات کے باوجود ملک سے باہر جانے کی اجازت کو وقتی طور پر روک کر پی ٹی آئی کے سخت گیر موقف رکھنے والوں نے اپنا پیغام بھی اوپر تک پہنچا دیا ہے۔
سوپ بھی روز بروز گاڑھا ہوتا جارہا ہے۔SOUP IS GETING THICKERاب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اگر تو اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب میں نوازشریف سے ٹکر نہ لینا چاہی تو پھر موجودہ حکومت کو بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑیگا۔ویسے تو نظر یہی آرہا ہے کہ فاختائوں اور عقابوں کی جنگ میں(DORES HAWKS)عمران خان کی آشیرباد عقابوں کے حصے میں آئی ہے اگر بات نہیں بنی تو انکا خیال ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرکے دوبارہ انتخابات کرائے جائیںلیکن ایسا قدم انکے لئے خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔اسی لئے وہ جہانگیر ترین کے ساتھ مل بیٹھے ہیںکہ کہیں ترین صاحب اپنا وزن ن لیگ کے پلڑے میں نہ ڈال دیںلیکن شطرنج کے اس کھیل میں تمام کھلاڑی شاطرانہ مضمرات رکھتے ہیں۔گھوم پھر کر ہوگا وہی جو ریفری چاہے گا۔فی الحال تو سب کھلاڑی بشمول آصف زرداری اپنے پتے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔اب جو کچھ بھی ہوگا وہ سعودی عرب میں ہونے والے فیصلوں کی روشنی میں ہی ہوگا۔آصف زرداری کی خاموشی بھی معنی خیز ہے اور وہ بھی اپنی دیگ پکا رہے ہیںجس کا ڈھکن عید کے بعد ہی اُٹھے گااور پھر پتہ چلے گا کہ کیا پکا ہے!!
٭٭٭