حکایت رومی اور حکومت جمہوری…!!!

0
109
ماجد جرال
ماجد جرال

حکایات رومی میں سے ایک حکایت ہے کہ ایک آدمی رات کو دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر درزیوں کے بارے میں مزے دار قصہ سنایا کرتا تھا۔ اس کے سبب وہ پورے علاقے میں بہت مشہور تھا، اس شخص نے اپنی کہانیوں میں ایک ایسے درزی کے قصے سنائے کہ لوگ حیران رہ گئے اور ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ اس درزی کے پاس جائے گا اور اسے اپنے کپڑے کا ایک انچ بھی نہیں چرانے دے گا۔ قصہ گو نے اس درزی کا پتہ اس شخص کو دے دیا۔ اس شخص نے بازار سے انتہائی مہنگا کپڑا خریدا اور اس درزی کے پاس پہنچ گیا جس کے بارے میں قصہ گو نے کافی قصے بیان کر رکھے تھے۔اس آدمی نے درزی سے کہا کہ یہ انتہائی مہنگا کپڑا ہے اور سلیقے کے ساتھ پوشاک سلائی کرنی ہے۔ اگر تمہیں برا نہ لگے تو تم کپڑے کی کٹائی میرے سامنے ہی شروع کر سکتے ہو۔ درزی فورن اس صورتحال کو بھانپ گیا کہ اس نے ایسا کیوں کہا۔ اب درزی بھلا اپنے مہارت دکھائے بغیر کیسے رہ سکتا تھا ،اس نے گاہکوں کے لطیفے سنانے شروع کیے، اور ساتھ ساتھ کپڑے کی کٹائی شروع کردی۔ جیسے ہی گاہک درزی کے لطیفے پر قہقہ مارتا تو درزی کپڑے کا کوئی ایک ٹکڑا اپنے بازو کے نیچے چھپا لیتا۔ چند لطیفے سنانے کے بعد درزی نے جب خاموشی اختیار کرلی، گاہک نے کہا کہ مزید لطیفے سنائیں۔ جس پر درزی نے جواب دیا کہ اگر میں نے اور لطیفے سنائے تو پوشاک اتنی تنگ ہوجائے گی کہ تم پہن نہیں سکو گے ۔پاکستان کے نظام میں یہ تینوں کردار موجود ہیں، ایک مدت سے ہمیں قصے کہانیاں سنا کر ہمیں لوٹا جا رہا ہے اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہمیں ان کے قصے، کہانیوں ،وعدوں، نعروں سے اتنی محبت ہے کہ ہم انہیں ہر وقت سننا چاہتے ہیں۔ یہ لطائف سن کر ہمارے خیالات ہم پر تنگ ہو گئے ہیں بالکل اسی طرح ہماری زندگی کی بساط مزید تنگ ہو جائے گی۔ پاکستان کی سیاست پروپیگنڈہ کی نظر ہو چکی ہے، ہر کوئی اس تنگ نظری کا شکار ہوگیا ہے کہ کوئی کسی دوسرے کا نظریہ سننے کو تیار نہیں۔ بے تحاشہ جعلی اکائونٹس کے ذریعے غلط معلومات لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں اور ہمارے لوگ اس کو بڑے شوق کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ اس سارے ڈرامے میں قصہ گو اور درزی کا جاتا ہوا کچھ نظر نہیں آتا، اور لطیفے سننے کے شوق میں مبتلا اس قوم کا بچتا ہوا کچھ نظر نہیں آتا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here