خوش قسمتی اور بدقسمتی میں بال برابر کا فرق ہوتا ہے، آپ تک جب یہ مضمون پہنچے گا تو آپ کو معلوم ہو چکا ہوگا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا فائنل میں کس سے مقابلہ ہونے والا ہے، ورلڈ کپ کے ابتدائی دو میچوں کے دوران ناکامی کے بعد پاکستانی ٹیم نے جس انداز سے کم بیک کرتے ہوئے بقیہ میچز جیتے اس پر پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوںجنھوں نے بڑی شکستوں کے بعد بھی اپنے حوصلوں کو قائم رکھا، خاص طور پر کپتان بابر اعظم اور رضوان نے ایک مرتبہ پھر بڑے میچ میں ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کرکے جیت کی بنیاد رکھی اور پاکستانی کرکٹ ٹیم گرتی پڑتی ہوئی بلاآخر فائنل تک پہنچ گئی ہے اور عین اسی وقت پاکستان کی سیاست بھی کامیابی سے بڑا اہم موڑ لے رہی ہے، عمران خان پر قاتلانہ حملہ اس کے بعد درج ہونے والی ایف آئی آر کے واقعات ، توڑ پھوڑ، وزیراعظم شہباز شریف کے بیرون ملک دورے اور فوری طور پر لندن میں بڑے بھائی نواز شریف سے ملاقات کرنا تمام کڑیوں کو ملا یا جائے تو پاکستان کی سیاست مثبت موڑ کی جانب جاتی نظر آ رہی ہے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ مثبت سوچ رکھ کر ملک پاکستان کی بہتری بارے لائحہ عمل بنائیں، ہم بیرون ملک پاکستانیوں کو سب سے بڑی فکر پاکستان کے مستقبل سے لاحق رہتی ہے ، ایک یہ بھی ملک ہے جہاں ہم آکر آباد ہوئے ہیں ، یہاں کی جمہوریت کو داد دینی چاہئے کہ کل ہی کی تو بات ہے کہ 8نومبر کو الیکشن ہوا، عوام نے اپنی رائے کا حق استعمال کیا اور اسی رات 12 بجے تک رزلٹ آنا شروع ہوگئے، اس طرح ہارنے والے جیتنے والے کو مبارکباد دے ر ہے تھے ، کوئی جھگڑا ، فساد نہیں ہوا، ایک سسٹم بنا دیا ہے، سب اس سسٹم کو فالو کررہے ہیں، اس کو جمہوریت کہتے ہیں، کیا ہم اس سسٹم کو اپنے ملک پاکستان میں نہیں لا سکتے؟ کیا ہم ایک جمہوری پسند قوم نہیں بن سکتے ہیں؟ کیا ہم بلاامتیاز رنگ ونسل ، بلا امیری ، غریبی کے ایک سسٹم کو فالو کرتے ہوئے انتخابات کا انعقاد نہیں کر سکتے ؟ اس مڈ ٹرم الیکشن میں کئی پاکستانیوں اور مسلم کمیونٹی نے بھی حصہ لیا ، انہیں اپنوں نے بھی اور غیروں نے بھی ووٹ دیااور کئی اپنوں اور غیروں نے ووٹ نہیں بھی دیالیکن الیکشن کے رزلٹ کے بعد کسی نے ایک دوسرے کے ساتھ نفرت کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس طرح ہو گئے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، میں ان تمام امیدواروں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے کامیابی حاصل کی اور انہیں بھی مبارک باد دیتا ہوں جنھوں نے سیاسی میدان میں الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل نہ کر سکے اور اس کے باوجود جیتنے والے کو مبارکباد دی اور اگلے الیکشن بارے ایک تجربہ لے کر آگے بڑھنے کا ارادہ کیا، اس میں کچھ پاکستانیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن میں نیویارک لانگ آئی لینڈ کی تنظیم PACE کے روح رواں سید حسن بھی ہیں جنھوں نے الیکشن سے ایک رات قبل تمام کمیونٹی رہنمائوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیااور الیکشن کا ماحول مہیا کیا، سب نے الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے پر زور دیا ، اسے کہتے ہیں کمیونٹی کے رہنمائوں کو رہنما ئی دینا، ہماری کمیونٹی میں سعید حسن، عدنان بخاری، بشیر قمر، حسن رضا ، چودھری اکرم، خادم سرور، رفیق چودھری ، سہیل رانا ، اشرف اعظمی، عامر سلطان ، شازیہ ، عذرا ڈار، محسن شاہ و دیگر متحرک لوگوں کا شکریہ کہ انھوں نے اس لیکشن کمپئین میں کمیونٹی کو متحرک کیا، ایک پلیٹ فارم مہیا کیا، آج ہم ان لوگوں کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ امریکی مین اسٹریم میں ہماری کمیونٹی کسی بھی کمیونٹی سے کمتر نہیں، چودھری اکرم اور ان کے صاحبزادوں نے ایک منفرد الیکشن کمپئین چلائی جس کا بہتر روشن مستقبل نظر آتا ہے ، میں طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے متحرک نہ ہو سکا، لیکن نیویارک کے چاروں بیورو میں پاکستانی امریکنز بہت متحرک نظر آئے ، بے شک یہ ایک اچھے معاشرے میں کامیاب کمیونٹی کی نشانی ہے ،امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں بھی ارباب اختیار ایسا ماحول بنانے میں کامیاب ہوجائیں، جس میں تشدد، الزامات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے بلکہ تمام سیاسی جماعتیں خندہ پیشانی سے انتخابی نتائج کو تسلیم کریں،اور ملک میں آڈیوز، ویڈیوز ریکارڈنگ کی گندی سیاست کا بھی باب بند ہونا چاہئے، سیاست عوامی خدمت کا نام ہے اور پاکستانی سیاستدانوں کو اس اہم فریضے میں اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے، اللہ تعالیٰ پاکستان کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کو اور پاکستانی امریکنز کو نظر بد سے بچائے۔
٭٭٭