تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان خیبرپختونخواہ اور پنجاب اسمبلیوں کو تحلیل کرکے موجودہ وفاقی حکومت پر نئے انتخابات کیلئے دبائو بڑھانے کی سوچ رکھتے ہیں لیکن دس نشستوں کے ہارے وزیراعلیٰ کے منصب پر براجمان چودھری پرویزالٰہی اس معاملے پر عمران خان کو انکے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی درخواست کرتے رہے تھے لیکن عمران خان نے جب سے انکی درخواست رد کی ہے چودھری صاحب کچھ اکھڑے اکھڑے سے لگ رہے ہیں۔ اب پرویزالٰہی صاحب فرما رہے ہیں کہ میں عمران خان کی جنرل(ر) باجوہ پر شدید تنقید سے متفق نہیں ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جنرل باجوہ ہمارے اور عمران خان کے محسن تھے اور انہوں نے عمران خان کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ عمران خان نے جنرل باجوہ پر تنقید کرکے احسان فراموش کی اور اس پر ظلم یہ کیا کہ مجھے ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس میں جنرل باجوہ کو برا بھلا کہا ہے یہ بہت زیادتی کی ہے اور اب اگر انہوں نے اسی کوئی بات دوبارہ کی تو میں اور میری جماعت اسے برداشت نہیں کریگی اور اسی صورتحال میں ہم اٹھ کر آجائیں گے کیونکہ ہم سے برداشت نہیں ہوگا۔ دراصل اندر کی بات یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی جانتے ہیں کہ اگر اسمبلی تحلیل ہوگئی تو وہ دوبارہ وزیراعلیٰ نہیں بن پائیں گے۔ اسلئے وہ مختلف باتیں کرکے اپنی مذاکراتی حکمت عملی کو وزراء بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف انکی بات پی ڈی ایم یعنی موجودہ وفاقی حکومت کے نمائندوں سے بھی چل رہی ہے اگر وہ مان جاتے ہیں توہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے موجودہ اسمبلی کے باقی ماندہ وقت کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر قائم رہیں گے۔ جیسے کہ پچھلے کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ پرویزالٰہی منتھ پنجاب کے ”کیدو” ہیں یہ کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہے تو اپنے بزرگ بھائی چودھری شجاعت کو بھی ہاتھ دکھا گئے تھے تو عمران خان کی چیز ہیں؟ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے سیاست کرنے والے چودھری پرویزالٰہی اور ایسے کئی سیاستدان جنرل باجوہ کے اس بیان کے بعد کہ فوج اب سیاست میں دخل اندازی نہیں کریگی اب اپنے کو یتیم محسوس کرتے ہوئے مایوس ہوگئے ہیں انہیں اب محسوس ہو رہا ہے کہ انکا مستقبل تاریک ہے۔ بحیثیت قوم پاکستان کے لوگ اس سیاست سے لاتعلقی کے اعلان سے بہت خوش ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پراجیکٹ عمران خان کے بعد اور کوئی تجربہ نہیں کیا جائیگا کیونکہ ان تجربات سے پاکستان کو بہت نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی اداروں کی نشوونما آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں ہونی چاہئے تاکہ عوام کے حقیقی اور بہتر نمائندگی سامنے آئے ماضی میں جن ٹیسٹ ٹیوب سیاسی رہنمائوں کو سامنے لایا گیا وہ عوام کی زندگیوں اور ملکی حالات میں کوئی خاطر خواہ بہتری لانے میں ناکام رہے ہیں۔ عوام کو مکمل آزادی ہونی چاہئے کہ وہ کھل کر اپنی پسند کی جماعت اور امیدوار کو اپنا نمائندہ منتخب کرے اور اسے انتخابات ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے زیرانتظام ہونا چاہئیں۔ جس پر پاکستان کی عوام کو مکمل اعتماد ہو۔ انتخابات کا انعقاد ایسے فول پروف نظام کے تحت ہو جو بین الاقوامی طور پر آزمایا ہوا نظام ہو جس میں دھاندلی حت الوسع ناممکن ہو۔ اسی طرح عدالتی نظام بھی مکمل طور پر آزاد ہو جس پر کوئی دبائو نہ ہو جو عوام وخاص کو یکساں انصاف مہیا کرنے کی طاقت رکھتا ہو کسی عام انسان کو یہ خوف نہ ہو کہ طاقتور اس کے ساتھ کوئی زیادتی یا حق تلفی کر پائیگا۔ جب تک پاکستان میں یہ چند تبدیلیاں نہیں آئینگی اندرونی اور بیرونی خلفشار کے ذریعے پاکستان کے دشمنوں کا گھیرا پاکستان کے گرد تنگ ہوتا جائیگا۔بیرون ملک پاکستانیوں کی یہ خواہش ہے اور تمنا ہے کہ پاکستان کے حالات سدھر جائیں جس کے لئے تمام طبقات اور خصوصی طور یہ تمام سیاستدانوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور مذاکرات کے ذریعے اختلافات ختم کرکے ملک کو مضبوط کرنا ہوگا۔
٭٭٭