حکومت نے سوچا کہ جاتے جاتے کوئی کسر رہ نہ جائے اس لیے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہی چلتے ہیں، شاید انہیں لگا کہ عوام پر بوجھ ڈالنے میں کوئی کمی باقی رہ گئی تھی یا یہ بھی ممکن ہے کہ موجودہ حکومت کو کوئی آدمی ہنستا ہوا نظر آیا ہو اور یہ لوگ برداشت نہ کر سکے ہوں، اس لیے آج پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس میں تقریبا 20 روپے لیٹر اضافے کی نوید سنائی اور اس کے بعد اسے قومی مفاد بھی قرار دیا، خدا کا خوف کرو یہ کیسا قوم مفاد ہے جو کہ لوگوں کا جینا حرام کر رہا ہے اور وہ لوگ جو اج نوالے نوالے کو ترس رہے ہیں، ان کو آپ قومی مفاد کے نام پر ایسے ظالمانہ فیصلوں کے ذریعے بہلانے کی کوشش کرتے ہیں، میری نظر میں یہ قومی مفاد نہیں بلکہ ہماری اشرافیہ کا ذاتی مفاد ہے، پاکستان میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں کسی بھی غریب کا عزت کے ساتھ رہنا دشوار ہو چکا ہے۔حکمرانوں نے حالات کو اس قدر ابتر کر دیا ہے کہ لوگوں کو پاکستان ملک کم اور جیل زیادہ لگنے لگا ہے، ہر کوئی اس جیل سے فرار چاہتا ہے،،، چاہے اس کے لیے اسے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے لوگ یہ قیمت ادا کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور فوجی جرنلوں کی نااہل لوگوں کی پناہیوں کے سبب آج ہم زوال پذیری کی جس راہ پر گامزن ہیں جہاں سے واپسی بہت مشکل ہو جائے گی۔خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو مگر اج قرضوں کی خاطر ہم کبھی اپنی بندرگاہیں گروی رکھتے ہیں تو کبھی ایئرپورٹ پر گارنٹی دیتے ہیں اور قرضے لیتے نوبت یہاں تک نہ آجائے کہ کسی روز پورا پاکستان ہی ہم کسی کے پاس گروی رکھ دیں۔اس سے ہٹ کر دیکھیں تو بجلی کی قیمتوں میں جو پاکستان میں اس وقت تماشہ برپا کر رکھا ہے وہ بیان کرتے ہوئے کلیجہ دل کو اتا ہے، 25 30 ہزار روپے بمشکل کمانے والے شخص کا بجلی بل ہی 12 یا 13 ہزار روپے سے زیادہ ہے۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بالاخر ہماری انتہا کیا ہوگی،، لوگوں کے خریدنے کی سکت جس روز ختم ہو جائے گی اس روز یہ لوگ کس کو نوچ کر کھا جائیں گے کیونکہ ایک دن ایسا ہونا ہے کہ جس عوام کو آپ نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، اس کے پاس بھی آپ کو نوچ کر کھانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اس تمام صورتحال کی وجہ صرف اور صرف ہمارے حکمرانوں کے یہ بدمعاش فیصلے ہوں گے۔
٭٭٭