پچھلے کئی ماہ سے مڈٹرم الیکشن کی تیاری کے سلسلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کا جو موقف رہا ہے بقول صدر بائیڈین کے ”امریکہ میں جمہوریت کو خطرہ ہے” ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں عمران خان کے مخالف(حکمران، جنرلز اور بدعنوان سیاست داں اور تاجر) پچھلے کئی سالوں سے چیخ رہے ہیں جب کہ دونوں ملکوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔ اور اگر جمہوریت باقی رہتی تو امریکہ میں ایسا نہ ہوتا حد سے بڑھی مہنگائی، پیٹرول کی قیمتیں، اور بگڑی معیشت اور ان تینوں مسائل کو عوام ذہن میں رکھتے ہوئے ووٹ دینگے۔ صدر بائیڈین نے پچھلے دو سال میں جو کچھ کیا ہے اس کی تصویر یہ ہے کہ فریم میں سفید کاغذ پر کانچ بلوئے کھینچ دیں یا پکاسُو کی کوئی پینٹنگ رکھ دیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہوگی بقول جعفری صاحب کے!
”میں تو سمجھا تھا انناس وہ عورت نکلی”
اس وقت جو مشکلات درپیش ہیں وہ سب جانتے ہیں جن میں ہمیشہ کی طرحABORTION(اسقاط حمل) سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے اب جب کہ سپریم کورٹ نے اس پر پابندی کا فیصلہ دیا ہے اسکے بعد لگتا ہے کہ یہ بڑا مسئلہ ہے بات صرف اتنی ہے کہ اگر یہ قانونی بنایا کہ جس کا جی چاہے اور جب چاہے(مدت اسقاط حمل) وہ قانون کے تحت یہ کرسکتا ہے حالانکہ بہت سی ریاستوں میں یہ کام فیس دے کر ہوسکتا ہے۔لیکن امریکہ میں یہ بہت ہے لہٰذا اس کا بوجھ صارفین حکومت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ دوسرا ایشو، مہنگائی ہے جو ہر چیز پر ہوچکی ہے پیٹرول سے لے کر کھانے پینے کی ہر چیز پر قیمتیں تین گنا بڑھائی گئی ہیں۔ دوسرے معنوں میں منافع خوری بڑھ گئی ہے اور حکومت بے بس ہے یا اس پر کنٹرول نہیں دیکھا جائے تو دونوں ہی باتیں ہیں ،دوسرے معنوں میں امریکہ میں بھی بلیک مارکیٹنگ کھل کھلا کرہو رہی ہے کہ چیز دستیاب ہے لیکن من مانی قیمت پر فروخت کی جارہی ہے۔ جب کہ تیسری دنیا میں چھپا کر بیچی جا رہی ہے لیکن یہاں پر حکومت نے فوڈاسٹمپ(کریڈٹ کارڈ کی شکل میں) دے کر مہنگائی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے اور کارپوریشنز(COSCO، اور بڑے اسٹور) کو بنک کرپٹ ہونے سے بچایا ہے۔ صدربائیڈن الیکشن میں اپنی مدد کے لئے اوبامہ سابق صدر کو بھی لے آئے ہیں جب کہ ورکنگ کلاس میں اوبامہ کا ریکارڈ بھی پروپیگنڈہ کی وجہ ہے ان کے دور میں کافی ملکوں پر گولہ بارود کی گئی تھی جو مہنگائی کی وجہ بنتی ہے اور آج بھی یوکرین اور روس کی جنگ میں ہاتھ بٹا کر کروڑوں ڈالرز باہر بھیجے گئے ہیں جیسے امریکن کو ضرورت نہیں یا خود کفیل ہوچکے ہیں۔ ہتھیاروں کا کاروبار زوروں پر ہے عموماً ایسا کام(جنگ) ریپبلکن کے دور میں ہوتا رہا ہے ،سوائے سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انکا کہنا تھا افغانستان سے افواج واپس بلائی جائیں اور کناڈا سے سائوتھ میں آئل کی پائپ لائن ڈالی جائے ابھی ادھورا کام ہوا تھا کہ صدربائیڈن نے آتے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بند کرا دیا اور قیمتوں کے بڑھنے کا الزام روس اور سعودی عربیہ کو دے دیا جب کہ ایسا نہیں ہے اور سعودی عرب اورOPECکے ممبروں کو من مانی کرنے کا جواز دے دیا۔ دوسری طرف جس میں انکا فائدہ ہے، ان سے ہر کام کرواتے ہیں یہ ایک سیاست ہے اور عوام اسکا شکار ہیں۔ اوہائیو(OHIO)ریاست مڈٹرم الیکشن میں جنگ کا میدان رہا ہے اور گزرے منگل کو بھی بنے گا جبJ.D VANCEجو ریپبلکن کے امیدوار ہیں ،گورنر بن جائینگے جن کے لئے سابقہ صدر ٹرمپ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، خیال رہے صدر بائیڈن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور ہماری پیشن گوئی دوسرے پول کے مطابق ہے کہ دونوں ہائوسیزSenateاور کانگریس میں ریپبلکن کی اکثریت ہوگی۔ صدربائیڈین کو پروپیگنڈہ کے ذریعے میڈیا نے اٹھا رکھا ہے۔ امیگریشن کے مسئلے پر بات کی جائے تو ہمیشہ سے تازہ ہے اور صدر جوبائیڈین کے دور میں بڑھاوا ملا ہے کہ سائوتھ بارڈر جو میکسیکو سے ملتا ہے۔ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جو بارڈر فینس لگوائی تھی اس پر بھی ادھورا کام ہے اور صدر بائیڈین نے آرڈر کے تحت رکوا دیا تھا، غیر قانونی ہسپانوی لوگوں کو روکنے کے لئے پولیس فورس جیسے بارڈر پولیس کہا جاتا ہے ناکافی ہے۔
پچھلے کئی ماہ سے ٹیکساس کے گورنر ایبٹ نے خفیہ معاہدہ کے تحت غیر قانونی امیگرنٹ کے قافلوں کو بسوں میں بٹھا کر نیویارک، واشنگٹن اور شکاگو ورانہ کرتے رہے ہیں، تازہ اعداد شمار کے مطابق صرف نیویارک میں9ہزار لوگوں کو میئر آفس کی طرف سے خوش آمدید کہا گیا ہے اور ان کی رہائش کے انتظامات کئے جارہے ہیں ادھر ٹیکساس کے گورنر نے صرف چند ملین ڈالرز(بسوں اور دوسری سہولتیں) خرچ کرکے انہیں ڈیموکریٹک ریاستوں کے حوالے کیا ہے اس پر میئر نیویارک برہم ہیں(ظاہری طور پر )
نیویارک ہمیشہ سے ڈیموکریٹک ریاست رہی ہے اور اس کے گورنرز اور سینیٹرز بھی ڈیموکریٹک رہے ہیں۔ پچھلے سال گورنر کیومو کے حادثاتی طور پر انخلا سے انکی ڈپٹی ہوشل(HOCHAL)کو قانونی طور پر گورنر بنایا گیا تھا۔ اور اب وہ مقابلے میں ہیں ریپبلکن کے امیدوار زیلڈین سے جو مقبولیت حاصل کرچکے ہیں زبردست مقابلہ ہے ،ہماری رائے میں نیویارک کے پانچ باروز سے چار باروز میں اور ناسو کائونٹی میں ڈیموکریٹک ہیں۔ جو پچھلے دس سالوں اور اس سے زیادہ میں ترک وطن کرکے آباد ہوئے ہیں زیادہ تر تعداد بنگلہ دیش، پاکستان، ہیٹی، جمیکا، ٹرینیڈاڈ اور روس یوکرین کے ممالک کی ہے اور آدھی سے زیادہ تعداد ہسپانوی ووٹرز کی ہے۔ اور سب سے زیادہ آبادی بھی تھابلتاً دوسری کائونیٹرز کے یہیں آباد ہے وہ سب اگر ووٹ ڈالنے نکلے تو جیت ہوشل کی ہوگی کہ انہیں خطرہ ہے زیلدین کے آنے سے انکے مراعات اور دوسری سہولتوں میں کٹوتی ہوگی۔ لیکن ناسو کائونٹی میں پچھلے سال ریپبلکن ایکزکیٹو بروس بلیک مین بن چکے ہیں اندازہ ہے یہاں بھی زیلڈن کامیاب ہوں گے۔
صدر بائیڈین تاریخ کے ایک بے اثر صدر کے نام سے جانے جائیں گے جن کے عہد میں کچھ بھی قابل ذکر بات نہیں ہوئی جو عوام (ورکنگ کلاس اور سینئر شہری) کے حق میں ہو۔ اس بات پر پردہ ڈالنے کے لئے اور عوام کو جتانے کے لئے کہ اگر ریپبلکن آگئے تو جمہوریت کو خطرہ ہوگا، بالکل تیسری دنیا کے لیڈروں کی طرح ان کے اس دعوے میں یہ بھی پنہاں ہے کہ امریکی عوام کس حال میں ہیں اور امریکہ کے خوبصورت بنیادی ڈھانچے کو کس طرح نقصان پہنچایاگیا ہے اگر عدلیہ آزاد نہ ہوتی تو اور بھی کچھ برُا ہوتا۔
٭٭٭٭٭