سیاسی کارکنوں اور ارکان اسمبلی کو اکثر یہ کہتے سنا ہے۔کہ اگر عمران کو کچھ ہوا تو اپنے بچے قربان کردینگے۔ اگر مریم کو کچھ ہوا تو جان قربان کردینگے۔ان لعنتیوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ رسول خدا ھماری ریڈ لائن ہیں اگر کسی نے کراس کی تو اپنے سمیت بچے قربان کردینگے۔ سب نے اقتدار کے مزے لئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جان، مال اور بچے قربان کرنے کی بات نہیں کی۔ میرا ان سیاسی گماشتوں سے سوال ہے کہ کیا معاذ اللہ آپکو نبء کریم سے زیادہ اپنے لیڈروں سے محبت و عقیدت ہے۔؟ آجکل فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے ان کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ اور قصیدے کہنے والے گالی گلوچ کہہ رہے ہیں۔ دراصل یہ منافقوں کے ٹولے ہیں۔
قارئین ۔! آپ کی طرح میرا سوال ہے ۔ عمران خان،نواز شریف،فضل الرحمن ،آصف زرداری ،آرمی چیف اور چیف جسٹس سے ۔ کیا آپ کو ملکی صورتحال ،سیاسی تلخی،انتقامی سیاست اور بڑھتی ہوئی سیاسی نفرت کاادراک اوراندازہ ہے۔؟
اگر ہے ۔؟ تو پھر سیاسی مخالفین مرنے اور مارنے پر کیوں لے ہیں۔؟ الحمدللہ عمران خان حملہ میں مخفوظ رہے ۔مگر پنجاب حکومت سے سوال ہے کہ آدھی درجن ایجنسیوں کو آپ کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر عمران خان پر حملے کا خطرہ یا اطلاع تھی تو بروقت سیکورٹی کا انتظام کیوں نہ کیا گیا۔پی ٹی آئی کے سینٹر اعجاز چوہدری کے مطابق انہوں نے اس حملہ سے عمران خان کو خبردار کیا تھا۔ اعجاز چوہدری کو کیسے علم تھا؟ پی ٹی آئی قیادت کو حملہ کا پہلے سے علم تھا۔تو انہیں نے سیکورٹی کا خاطرخواہ انتظام کیوں نہ کیا؟ سوال تو بہت ہیں۔ لیکن آپ پی ٹی آئی سے سوال کریں تو انکی گالیوں اور بدتمیزی کی کیسٹ آن ہوجاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر انکی ٹیم کے مغلظات سے انکی سیاسی تربیت کا اندازہ مشکل نہیں۔اگر خدانخواستہ عمران خان کو راستے سے ہٹایا جاتا ہے تو پارٹی کی قیادت کون کرئے گا۔ ؟ کیا یہ لوگ انہی جماعتوں میں واپس چلے جائیں گے جہاں سے آئے تھے؟ * کیا غائب قوتیں موجودہ ڈرٹی نظام میں اصلاح نہئں چاہتیں۔ * کیا اسٹبلشمنٹ اس ڈرٹی کھیل کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔؟ * کیا یہ پتلی تماشا ایسے ہی چلتا رہے گا۔؟ * کیا عدالتی نظام پچہتر سال گزرنے کے بعد بھی بدبودار رہے گا۔؟ * اگر رضیہ (یعنی پاکستان) نے غنڈوں میں ہی پھنسنا ہے تو ہر چار / پانچ سال بعد الیکشن پر اربوں روپے لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ اتنے بڑے بڑے لیڈروں میں اس پہلو پر سوچنے کی صلاحیت ہی نہ تھی۔یا یہ سب بھی اندر کھاتے کسی اندرونی بیرونی طاقت سے ملے ہوئے ہیں؟؟ کوئی فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتا ہے۔ کوئی جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے خلاف جلسوں میں نعرے لگواتا ہے ۔ اور کوئی فوجی جرنیلوں کو غدار قرار دیتا ہے۔اور کوئی یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے کا نعرہ لگواتا ہے۔ اگر جرنیل اپنی حدود میں رہیں تو افواج پاکستان کو گالیاں نہ پڑیں ۔ یہ جو پاکستان کے ہمدرد ہیں اگر انہوں نے الیکشن لڑنا ھے تو ان سب کے غیر ملکی پاسپورٹ ضبط کریں ۔جرنلز اور ججز کو پابند کریں ۔ ریٹارمنٹ کی زندگی ملک میں گزاریں۔ سیاسی ماحول میں وزرا، اپوزیشن ارکان کے تلخ بیانات نے آگ لگا رکھی جس سے مین اسٹریم کارکنان میں نفرت پیدا ہوئی ہے۔ گزشتہ تین دھائیوں سے امریکہ میں ہوں ۔ سیاسی رواداری اور برداشت موجود تھی ۔ ایک دوسرے کے پارٹی فنکش اٹینڈ کرنا ،مخالفین کا موقف سننا عام تھا۔ لیکن تلخیاں ، نفرتیں، قدورتیں اور دشمنیاں اس حد تک نہیں تھیں۔ گزشتہ چند سال سے سیاسی کلچر یکسر تبدیل ہوا چکاہے۔ امریکہ، یورپ اور پاکستان میں سیاسی کارکن پارٹی پولیٹکس اور شخصیت پرستی میں انتہائی نفرت اور اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کئی پڑھے لکھے اور پروفیشنلز کی گندی زبان اور بد تہذیبی سے محسوس ہوتاہے کہ انہیں تعلیم نے سوائے کاغذ کے ایک ٹکڑے کے کچھ نہیں دیا۔کئی بار پی ٹی آئی کے پڑھے لکھے جاہلوں کی انتہائی گھٹیا conversation سے واسطہ پڑا۔ جن کی Tone ایم کیو ایم کے فاشسٹوں سے چند قدم بڑھ کر دیکھی۔ تو اندازہ ہوا کہ تعلیم جب تک اندر داخل نہ ہو آپ ٹائیگر ھوں یا شیر ، دماغی کیڑا مادری شعور بھی چھین لیتا ہے۔ عقل حیران گے کہ انہوں نے ڈگریاں کہاں سے لی ہیں۔ ڈگری آپکو شعور عطا کرتی ہے۔ دوسروں کی عزت سکھاتی ہے۔ اگر پڑھ لکھ کر پٹواری، یوتھیا اور جیالا بن کر شخصیت پرستی کرنی ہے۔ تو ایسی تعلیم اور ڈگریوں پر لعنت ۔ جو آپکو ادب و احترام۔ تہذیب و تمدن ، اخلاق و کردار نہ دے سکے۔
پوری دنیا کی سیاست میں انتہا پسندی بڑھ رھی ہے۔پاکستانی سیاست میں۔کرپشن، لوٹ مار، دھونس،دھاندلی ،غنڈہ گردی عام تھی نہ بھٹو مر رہا تھا اور نہ ہی ضیا کی باقیات سے چھٹکارا۔لیکن چند سال پہلے ایک نئے version کا اضافہ ہوا۔ کرپشن فری پاکستان،اور تبدیلی کی نام پر سیاسی انتہا پسندی نیجنم لیا۔ جس نے ماضی کے جھروکوں اور بھٹو دور کی تلخ حقیقتوں کے آئینہ پر پڑھی دھول کو صاف کردیا۔
سیاست میں پر تشدد واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔
سیاسی مخالفین کا مقابلہ رائج الوقت ڈیموکریٹک طریقہ سے ہونا چاہیے ۔ایوب کے مارشلائی دور میں جماعت اسلامی کے قائدین اور ختم نبوت کے اکابرین کو
بھٹو دور میں جیلوں میں ڈالا گیا۔بھٹو دور میں ڈاکٹر نذیر اور خواجہ رفیق کو شہید کیا گیا۔مشرف دور میں جماعت اسلامی کے رہنماں کو ایم کیو ایم کے فاشسٹوں سے ٹارگٹ کروایا گیا۔وکلا کو شہید کیا گیا۔ سانچہ کارساز ہوا۔ سانچہ بلدیہ ٹان فیکٹری ہوا۔ بینظیر کو شہید کیا گیا۔ماڈل ٹان لاہور اور سانچہ ساہیوال ہوا ۔لیکن ان ہائی ہروفائل واقعات کو انویسٹی گیٹ نہیں کیا گیا۔مجرموں اور culprits کو نشان عبرت نہیں۔ بنایا گیا ۔ اسی لئے ایسے واقعات روز روزجنم لے رہے ہیں۔جو ھمارے ملک کی سیاسی تاریخ پر بد نما دھبہ ہیں۔شکست خوردہ لوگوں کی اخلاقی پسماندگی کا مظہر ہے۔
جس ملک میں قانون کی حکمرانی،آئین کی پاسداری ،سول سپرمیسی، رول آف لا، نہ ہو، وہ ملک عدل و انصاف کا معاشرہ نہیں بن سکتا۔قوموں کی ترقی اور عروج و زوال حکمرانوں کے رویوں پر ہوا کرتے ہیں۔ اور امن پسند معاشرے تہذیب و تمدن کا کہوارہ ہوا کرتے ہیں۔ ظلم، ناانصافی، زور زبردستی تباہی و بربادی پیدا کرتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ ان میں کوئی نظریاتی لیڈر نہیں ہے ۔ یہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے گملوں کی پیداوار ہیں ۔کسی کو ایوب خان نے لانچ کیا۔ کسی کو ضیاالحق نے کہا کہ میری زندگی لگ جائے۔ کسی کو جنرل مشرف نے بنایا اور کسی کو جنرل پاشا نے کھڑا کیا۔ اب وہ لوگ کہتے ہیں ھم پاکستان کو بدلیں ۔ آپ لوگ خود نہئں بدلے، پاکستان کو کیا بدلیں گے۔
ان سب کا داتا دربار جی ایچ کیو اور گیٹ نمبر چار ہے۔ یہ چند خود غرض جرنیل ہیں۔ چند نااہل ججز ہیں۔ یہ چند ظالم جاگیردار ہیں ۔یہ چند کرپٹ سرمایہ دار ہیں۔
یہ معاشی دہشت گرد ہیں ۔ آٹا، چینی اوربجلی مافیا کو کہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہی تینوں بڑی پارٹیوں کے سپورٹرز ہیں ۔انہی کے جلسوں پر انویسٹ کرتے ہیں ۔ ان درندوں کو انہی سیاسی پنڈتوں کی آشیرباد حاصل ہے۔اسی لئے مہنگائی کنٹرول کرنے ،بجلی کے بلوں کو کم کرنے کی صلاحیت کسی میں نہئں ہے۔
آرمی کا اپنا ایک آئینی دائرہ کار ہے۔ جسے اپنے اختیار کا استعمال اور حدود کا تعین کرنا چاہئے۔ افواج پاکستان کے عزت و وقار کو چند جرنیلوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا نہیں چاہئے۔ جرنیلوں نے افواج پاکستان کی ساکھ کو خراب کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی سیاسی میڈیا ٹاک کو قوم نے ناپسند کیا ہے۔ فوج کی سبکی ہوئی ہے۔ جس سے فوج بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ جنرل باجوہ اگر فوج کے وقار کو زندہ رکھنا چاہتا، تو ریٹائرمنٹ لے لیتا،معاملات کو اس حد تک نہ لے جاتا۔باجوہ چونکہ مرزائی ہے۔ اس لئے اسے ریاست پاکستان سے کوئی غرض نہیں۔
ایوب خان نے مولانا مودودی سے پوچھا کہ آج تک میرے سمجھ میں نہیں آیا کہ سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے۔؟ مولانا نے برملا جواب دیا یہ تو آپ کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن پوری قوم کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ فوج کا سیاست سے کیا تعلق۔
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کی غیرمقبولیت نے رجیم چینج کرداروں کو مضطرب کردیا ہے۔جو سیاسی اکھاڑے میں کودنے پر نفرت سمیٹ رھے ہیں۔
آئی ایس آئی دنیا کی بہترین سیکرٹ سروس ہے۔ جس کی بہادری کی لازوال داستانیں ہیں۔ اس بین الاقوامی ایجنسی کو سیاست کی اکھاڑ پچھاڑ میں استعمال کرنے سے پوری افواج کو گالیاں پڑ رھی ہیں۔
جن جرنیلوں نے اپنی پسند نا پسند میں ملک کو ماضی میں یا اب نقصان پہنچایا ہے۔ انکا احتساب ہونا چاہئے۔
اور جو سیاسی گماشتے انکے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کی مسند تک پہنچتے ہیں ۔ اقتدار چھننے پر احسان فراموشی نہ کریں۔
دشمنان پاکستان اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ حکومت، اور اپوزیشن میں بیک ڈور معاملات تقریبا طے پا چکے ہیں ۔ شاہ سلمان کے پاکستان دورہ سے پہلے الیکشن کی تاریخ کا اعلان متوقع ہے ۔ اگر یہ نہ ہوا تو ریاست کے معاملات مزید خراب ہونے جارہے ہیں۔ ایف آئی آر کا بروقت نہ جانا۔ پنجاب حکومت پر سوال ہے۔وزیراعلی پنجاب پرویز الہی اور پی ٹی آئی میں دڑاڑ پڑ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی ارکان پنجاب اسمبلی پرویز الہی کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ جسے پی ڈی ایم سہارا دے سکتی ہے۔مذہب کا سیاسی استعمال موجودہ تلخ ماحول میں مزید clash پیدا کرسکتاہے ۔
سیاست اور صحافت اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار تو رہی ہے ۔ لیکن اب سیاسی اور صحافتی طور پربینک کرپٹ ہوچکی ہے۔
صحافت جانبداری اور سیاسی feliation کے خبط میں مبتلاہے۔ قوم کے مفاد میں چیزوں کو گھٹا کر یا بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جس سے معاشرہ اپنی صیح سمت کا تعین نہیں کر پاتا۔کیا معاشرہ کی جو تصویر کشی عمران ریاض،ارشاد بھٹی ،حامد میر ، فرید فاروقی، سلیم صافی وغیرہ کررہے ہیں اسکو صحافت کہتے ہیں۔ سوکنوں کی لڑائی میں قلم کی حرمت پامال ہورھی ہے۔لانگ مارچ کا اعلان پھر ہوچکا ہے۔
عمران خان اقتدار چھننے اور پی ڈی ایم اقتدار کے خبط میں مبتلا ہیں۔ جن فیملیز کی ماہانہ اِنکم تیس ہزار ہے ۔ انکے بجلی کے بل تیس ہزار آرہے ہیں۔ وہ بچوں کی فیس،روزمرہ کے کھانے پینے کا بندوبست کیسے کریں۔ نہ کوئء میڈیا اور نہ کوئی سیاسی پارٹی عوام کی مشکلات و پریشانیوں کو اجاگر کررھی ہے۔ سبھی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عوام کسمپرسی ،بھوک ، ننگ اور مفلوک الحالی سے تنگ ان سیاسی گدھوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
کمزور کی دنیامیں کوئی شنوائی نہیں ۔ نہ کسی تھانہ میں اور نہ ہی عدالت میں ۔ دروازہ کعبہ کا ہو یا عدالت کا طاقتور کے لئے کھلتا ہے۔
ریاست پاکستان میں صرف ایک جماعت ہے، جس کے افراد نہ لوٹے ہیں نہ کھوٹے ہیں۔ نہ بد کردار ہیں اور نہ بد دیانت۔ جن کا ماضی اور حال گواہ ہے کہ ان اے بہتر کوئی جماعت ہے اور نہ ھی ان سے باکردار افراد۔اگر آپ ایماندار ،محب وطن،صالح افراد چننا چاہتے ہیں تو وہ صرف یہ لوگ ہیں ۔ باقی سب کو آپ نے آزمالیا۔چھان لیا۔ یہی لوگ پارٹیاں بدل بدل کر نظام کو داغدار کرتے ہیں۔جو اب تحریک انصاف میں ہیں۔ یہی لوگ ن لیگ، مشرف گروپ ،پیپلز پارٹی،اور ایم کیو ایم کا حصہ رہے ہیں۔بار بار ان کو آزما کر وقت برباد نہ کریں۔
٭٭٭