الوداع، کیوبا، الوداع!! !

0
331
کامل احمر

ہمیں یہ سب کچھ سفرنامہ کی شکل میں کتاب کے لئے لکھنا تھا، لیکن زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں جو کچھ لکھا مجیب لودھی صاحب کے اصرار پر لکھا اور لکھتے رہے۔ ضروری ہے سفرنامہ نگار کنکری سے بارش کی بوند اور سرسراتی ہوا کو اپنی تحریر میں بند کرلے کہ پڑھنے والے کو مزہ آئے آج کے اس دور میں جہاں لوگ کتابوں سے دور اور پڑھنے لکھنے سے بھی دور ہیں ہم شکر گزار ہیں کہ اردو دان طبقے نے ہمارا سفرنامہ پسند کیا ہم ابن بطوطہ نہیں تھے کہ سفر کے دوران جہاں جہاں پڑائو تھا دوستیاں کرتے ،مہم جوئی اور سحر انگیز تحریر رقم کرتے ہر شہر میں حسینائوں سے مل کر نسل بڑھاتے اور بھول جاتے۔ مطلب کہنے کا یہ کہ پرانے دور میں جو سیاح تھے بہت کچھ کرتے تھے۔ اور اس دور میں ہم نے جو کچھ کیوبا میں طاہر خان صاحب اور ملک خدا بخش کے ساتھ انکی رہنمائی اور قربت میں کیا ایک یادگار ہے، ملک خدا بخش جگہ جگہ رک کر پوچھتے کامل بھائی خوش تو ہیں ملک صاحب گنے کا رس نہیں مل رہا اور نہ ہی گنا طاہر خان صاحب کہنے ”گنے کا تعلق دانتوں سے ہے” اس دفعہ ہم نے فیصلہ کیا ٹیکسی خود سے باہر چوراہے پر جاکر اسٹینڈ سے لینگے۔23جنوری کی صبح تھی اور جمعرات کا دن تھا۔ لینڈ لیڈی کی بتائی ہوئی جگہ جاکر بہت اچھا ناشتہ کیا۔ انڈے، ڈبل ،روٹی اور لاٹے(LATTE) کے ساتھ ایک بار پھر مزہ آیا اور تعریف کی کہ بل بہت کم تھا دل چاہا دوبار کیا جائے۔ ٹیکسی اسٹینڈ آئے ایک ڈرائیور لپکا ملک صاحب نے اس سے بات کی ہمیں ونالیس(VINALES) جانا ہے ونالیس ہوانا کے مغرب میں183کلو فاصلے پر پہاڑوں کے درمیان میں ایک وادی کی مانند شہر ہے۔ پتلی سڑک جو ہائی وے سے نکل کر اونچائی پر چڑھتی ہوئی اور سانپ کی مانند گھومتی پہاڑوں کے درمیان اترتی ہے جہاں سگار کے پتوں کی کاشت ہوتی ہے جس کے لئے یہ مشہور ہے وہاں میوزیم پرانا رہن سہن زندگی کا ہر گھر کے اردگرد مرغیاں، بکرے اور گائے بیل نظر آئینگے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ ایک حفاظتی انداز میں کھڑے ملینگے۔ ٹیکسی والے نے کہا میں تو نہیں لیکن تمہارے لئے ٹیکسی منگوا دیتا ہوں۔20منٹ انتظار کیا ہم علاقہ کے نظارے کر رہے تھے۔ ایک اسکول کے سامنے لڑکے لڑکیاں اپنے خوبصورت یونیفارم میں انسٹرکٹر کی آواز پر ورزش کر رہے تھے راستے کے لئے ہم ایک منزل اوپر چڑھ کر بار سے پانی کی تین بوتلیں لے آئے کہ گرمی آج بھی بہت تھی ٹیکسی آچکی تھی ڈرائیور کو واجبی انگریزی آتی تھی وہ ونالیس سے واقف تھا۔ سفر شروع ہوا۔ طاہر خان صاحب ذرا خاموش تھے اور ابھی تک کوئی پھڑکتا شعر نہ سنایا تھا جوش ملیح آبادی کا اور ملک اللہ بخش آگے بیٹھے تھے تاکہ ڈرائیور سے پوچھ گچھ ہوسکے۔ راستہ بڑا دشوار گزار تھا اب معلوم ہوا کہ ٹیکسی ڈرائیور نے کیوں جان چھڑائی اور دوسری ٹیکسی منگوائی160ڈالر کم نہ تھے کیسا بے وقوف ڈرائیور تھا کسی مالدار سیاح کو ڈھونڈ رہا ہوگا۔ بہرحال یہ شعبہ ملک اللہ بخش کا تھا اور یہ ٹور بھی انکی طرف سے تھا بھلا ہوا نکلا دو گھنٹے کی ہائی وے ڈرائیونگ کے بعد اسٹاپ تھا ریستورانٹ جس کے اندر جانے کے لئے راہداری پر کیلوں کے پتوں کو لکڑی کے فریم پر بچھا کر خوبصورتی پیدا کی تھی یہ ہمارے لئے ریڈکار پیٹ تھا اور اتنا جازب نظر کہ فرمائش ہوئی کہ تصاویر لی جائیں ہم نے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا تو ایک کیوبن لڑکی منی اسکرٹ میں جو ہوا سے اڑ رہی تھی ایک ہاتھ سے دبائے دوسرے ہاتھ میں فون پر کچھ پڑھتی خراماں خراماں آرہی تھی کیمرے میں تصویر آچکی تھی طاہر خان صاحب کچھ کہنے والے تھے جب تصویر لے چکے تو بولے کیا شعر ہے !
ہر رنگ میں ابلیس سزا دیتا ہے
انسان کو بہر طور دغا دیتا ہے
کافی آگئی تو بولے کامل صاحب گنے کی تلاش تھی جائیں کائونٹر پر گلاس میں گنے کی تراشیں رکھی ہے ایسی جس سے آپ شکر گھول رہے تھے کافی میں ہم چونکے کائونٹر پر گئے وہاں کوئی نہ تھا چھ سات تراشیں لے آئے چوسنا شروع کیا نہایت نرم اور میٹھا گنا وہ بھی چھیل کر رکھا تھا۔ یہ آپ کے لئے ہے اب تو خوش”ملک صاحب نے توجہ اپنی طرف کی اور ہم طاہر خان صاحب کے مرہون منت تھے کیوبا میں گنا چوس کر دوبارہ سفر شروع ہوا۔ ٹیکسی ہائی وے سے اتر کر پتلی سڑک پر تھی جو گھومتی ہوئی پہاڑیوں پر چڑھ رہی تھی سڑک نہایت خراب تھی۔ لونگ آئیلینڈ ایکسپریس وے لگ رہی تھی سوشلسٹ ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے ڈرائیور مہارت سے ٹیکسی چلاتا اونچی اونچی پہاڑیوں پر جاکر ڈھلان میں اتر رہا تھا آگے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑوں کا سلسلہ تھا اور دامن میں پتوں کی فصلیں ابھی پوری طرح تیار نہ تھیں پہلے ہم ایک چوڑی جگہ رکے تصویریں لیں وہاں ایک چھپر کے نیچے ایک بیل تیار کھڑا تھا کہ آئیں اور سواری کریں ملک اللہ بخش بولے”یہ بھی ہماری طرف سے” اور طاہر خان صاحب بولے” بیل یا سواری” بیل کے نگران نے بتایا بیل سرکاری ہے ہم نے سوچا گھوڑا کیوں نہیں جواب ملا ”جناب سوشلسٹ ملک ہے” ہرذرائع کو استعمال کیا ہے جو دستیاب ہے۔ لیکن ہم نے کیا” بیل کی سواری؟” اور دوبارہ ٹیکسی میں آبیٹھے ڈرائیور ہمیں کسی گھر کے احاطے میں لے گیا جہاں مرغیاں اور بکرے کھڑے تھے۔ ہم نے کہا طاہر صاحب جی تو چاہ رہا ہے کڑاہی گوشت کھانے کو بھلے چکن کا ہی ہو۔ گھر کا مالک اور نوجوان کائو بوائے فلم کا کردار لگ رہا تھا۔ جسکی پتلوں میں پیچھے بڑا ساچھرا دیکھا تو دل اور بھی چھلاکہ چکن کو ذبیحہ کیا جائے ڈرائیور نے انتظام کیا تھا یہ دکھانے کے لئے کہ سگار کیسے بنایا جاتا ہے وہ ایک بڑے سے گودام میں لے گیا جس کی چھت چھیروں سے بنی تھی اور ایک میز پر تھیلے سے سگار میں استعمال ہونے والے پتے پھیلا دیئے اور پھر بڑی مہارت سے پتوں کو رول کیا دونوں طرف سے چھرا نکال کر کاٹا اور سگار ہمیں پیش کر دیا جو ایک سوینیئر تھا ہمارے لئے ہینڈ میڈ کیوبن سگار جو بعد میں معلوم ہوا فینسی ڈبے میں دس ڈالر کا ہے۔ ہم نے مل کر کھیتوں میں تصاویر لیں۔ پتوں کے درمیان اور تھک کر باہر نکلے تو جاویر نے اعلان کیا ہلال چکن ریڈی ہے۔ جاویر جس نے سگار بنا کر دیا تھا نے یہ انتظام ٹیکسی ڈرائیور کے کہنے پر کیا تھا۔ ہم نے پوچھا چکن تم نے کاٹا ہے معلوم ہوا کسی قسم کا جانور یا مرغی کاٹنے پر پابندی ہے۔ فارم سمیت حکومت کی ملکیت ہے اور وہ اس کی نگرانی کرتا ہے جس کا دس فیصد نگرانی کرنے کا معاوضہ ملتا ہے۔ حیران کن بات تھی لیکن یہ بات ہمیں دوسرے ٹیکسی ڈرائیور نے بتائی تھی۔
چاولوں کے ساتھ چکن کے مزے لئے اور پھر جاویر کا شکریہ ادا کرکے ٹیکسی میں آبیٹھے ڈرائیور ہمیں اونچے پہاڑ کے قریب لے گیا اور کسی فنکار بلکہ فنکاروں نے نیلے لال رنگ سے پہاڑ کی اونچائی تک چی گیوا اکی اسکیج بنائی تھی یہ دوسری مثال تھی اس آزاد اور زندہ قوم کی جو اپنے وسائل اور حکومت کے بنائے سخت قانون کے تحت تھی کہ کوئی بھی بھوکا نہ سوئے اور کوئی بھی بہت مالدار نہ بنے اور نہ ہی دولت کا لالچی ملک صاحب نے ڈرائیور کو پہلے ہمیں ہدایت کردی تھی وہاں پہاڑوں میں جگہ گپھائیں تھیں۔ اور ہم واپس آنے کے لئے باہر نکل رہے تھے پتلی سڑکوں پر ٹرک، بسیں گھوڑا گاڑی موٹرسائیکل، کاریں رواں دواں تھیں لگ رہا تھا کہ ہم1954کے میرپور خاص، اوکاڑہ یا رینالہ خورد میں آگئے ہوں جگہ جگہ گھروں کے دروازوں پرCASA(کمرہ کرائے پر) کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ طاہر خان صاحب تھک کر سوچکے تھے اور انکی زبانی مصطفٰے زیدی کا شعر یاد کر رہے تھے اردگرد سڑکوں پر پتھر اور مٹی کے تودے دیکھ کر
انہی پتھروں پر چل کر اگر آسکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
خیال رہے زیدی(تیغ الہ آبادی) ڈپٹی کمشنر تھے اور انکی محبوبہ شہناز گل ایک فوجی کی بیوی تھی ہمیں نہیں معلوم یہ شعران پر کن حالات میں نازل ہوا تھا شام ہوچکی تھی اور ہم ہوانا میں تھے گھر پہنچ کر فریش ہوئے ملک اللہ بخش نیچے لینڈ لیڈی سے اسکی زبان میں گفت وشنید کر رہے تھے بہت دیر ہوچکی اب کیا خاک سیکھنا ہسپانوی زبان کا ہم نیچے اترے اور باہر آگئے گلیوں میں کافی شاپ بار اور ریستوران طے ہوا اندر جاکر دیکھیں لیکن ویٹرس نے ہمیں بیٹھنے پر مجبور کردیا ملک اللہ بخش صاحب نے فراخ دلی سے کہا اپنی پسند کا لائو آدھ گھنٹہ بعد پلیٹیں اترنے لگیں ویٹر بتا رہی تھی یہ اُسٹو ہے گائے کے حلال گوشت کے ریشے سے بنتا ہے یہ کالے بین کے چاول یہ یخنی والے چاول اور یہ فرائی ریڈ اسنائیپرفیش سلاد اور پودینے کا شربت خوب سیر ہو کر کھایا اب دونوں حضرات کی پسندیدہ سویٹ ڈش آئی جو پلیٹ میں سجی پڈنگ(MOSITOموہیتو) تھی طاہر خان اور ملک اللہ بخش یہ تیسری بار نوش فرما رہے تھے ہم نے کھیرمنگائی تھی بتاتے چلیں کہ کیوبا میں مچھلی ہر ریستوران میں کئی طریقوں سے بنائی ملتی ہے وہیں قریب میں ارنسٹ ہمینگولے کا پسندیدہ بار تھا وہاں جاکر فوٹو کھنچوائے اور دوسرے دن روانگی تھی ایئرپورٹ پہنچے وہاں سے میامی ایئرپورٹ لینڈ کیا کسٹم ہوا اور جو سگار لا رہے تھے ضبط ہوگئے تمام ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here