پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک اور مسلمانوں کا قلعہ ہے۔ جہاں قاتل اور چور حکمران ہیں۔ نہ کوئی نظام ہے اور نہ کوئی سسٹم ۔ہر پیدا ہونے والا بچہ تین لاکھ کا مقروض ۔عوام بے بس،بے حال اور خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ کہیں نوجوان بیروزگاری کے ہاتھوں مجبور بلڈنگ سے چھلانگ لگانے پر مجبور ۔ اور کہیں غریب آٹے کے حصول کیلئے لائن میں کھڑے زندگی سے ہاتھ دھونے پر مجبور۔اندھیر نگری چوپٹ راج نے غریبوں سے نوالہ چھین لیا ہے۔ بے حس حکمران لوٹنے اور پھوٹنے کی تیاری میں مصروف۔نہ کوئی پرسان حال اور نہ ہی کوئی روشنی کی رمق۔ مایوسی ہی مایوسی۔اندھیرا ہی اندھیرا۔ سیاستدانوں اور جرنیلوں کی لوٹ مار نے پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنادیاہے۔ سبھی اپنا الو سیدھا کرنے اورتجوریاں بھرنے میں مصروف۔ ملک میں نہ گندم ہے نہ آٹا دستیاب ؟ عوام آٹے کے لئے در بدر ہو رہی ہے ۔ ملک میں پٹرول کی قلت ہے ۔عوام چند لٹر کے لئے روتی پھر رہی ہے ۔ کمرشل بینکس اور ڈیلرز کے پاس ڈالر ہیں جو ضرورت مندوں کی پہنچ سے دور ۔ضروت مند دھکے کھا رہے ہیں۔سبزی منڈیوں میں عدالتوں کے انصاف کے ترازو کو لٹکا دیا گیا ہے۔ انصاف کی جگہ عوام کو گونگلو بنا دیا گیا ہے۔ بارڈرز پر سیکورٹی فورسز موجود ہیں سمگلنگ اور دہشت گردی رک نہیں رہی ۔ وفاقی کابینہ 85 افراد پر مشتمل ہے جو کرپٹ، بددیانت اور مسخروں کا ٹولہ ہے۔ وزیر خارجہ پاکستان میں ٹک نہیں رہے۔ اسحاق ڈالر آئی ایم کے آگے سرنگوں ۔ قاتل وزیرِداخلہ بے ڈھنگی گفتگو میں مصروف ۔عوام ان مجرموں کی بوتھیاں دیکھ رہی ہے ۔ شہباز شریف،عمران خان،زرداری اور انکے گماشتوں کو شرم کرنی چاہئے۔ عوام کو قربانی دینے کا بھاشن دینے والے اپنی عیاشیاں بند نہیں کرتے عوام سے بار بار قربانی کا کہا جاتا ہے۔ ان ظالموں کو اپنی لوٹ مار بند کرنی ہوگی۔ اس ملک کو سبھی لوٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔ قارئین کرام !۔ ان سب نے ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ فلڈ ریلیف کی بیرونی امداد کو نہیں چھوڑا ۔ یہ درندے عوامی تکالیف کا ازالہ نہیں کرسکتے۔ خدارا ! ان ظالم درندوں سے جان چھڑائیں۔ اکنامک انڈیکئٹرزملکی اکانومی کی تباہی کا پتہ دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے تاریخ کا سب سے خطرناک معاہدہ سائن کیا گیا ہے۔ جو دس سال تک پاکستان کو مشکلات میں گھیرے رکھے گا۔بلوچستان اسمبلی کے ملازمین جو تنخواہیں دینے کے لئے پیسے موجود ہیں نہ ہی وفاقی حکومت پیسے دے رہی ہے۔ اس لئے بلوچستان اسمبلی ٹوٹنے کاخدشہ پیدا ہوچکاہے۔ بزنس کمیونٹی پریشان ہے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں انتہائی مشکلات ہیں۔ ایل سی نہیں کھل رہی ۔چین نے کوئی بھی مال دینے کے لئے ایڈوانس پیمنٹ کا مطالبہ کردیا ہے۔ آٹا کے لئے لائن میں لگے ایک شخص کو دل کا دورہ پڑا جس سے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ہر طرف بے یقینی اور مایوس پھیل رہی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کی آپسی لڑائی ،ضد اور ہٹ دھرمی نے معیشت کو مزید کمزور کردیا ہے۔ ایک طرف الخدمت نے گزشتہ سال چودہ ارب خرچ کئے جس سے کڑوڑ بائیس لاکھ افراد مستفید ہوئے ۔ اور دوسری طرف عمران خان نے سیلاب کی نام پر سترہ ارب روپے جمع کئے ۔ اور ڈھکارے گئے۔کیا کوئی بتائے گا کہ وہ پیسے کہاں خرچ ہوئے۔ کہاں امداد تقسیم ہوئی۔ جنہوں نے وصول کی۔ یہ نوجوانوں کی نظر میں ایماندار اور ملک کو ظالموں سے بچانے والے ایک لیڈر(عمران خان کا حال ہے۔ دوسرے چوروں کی بات ہی نہ کریں۔ اگر کوئی انسان کا بچہ حکمران ہو تو بیرون ملک پاکستانی اپنے وطن کو اپنے پاں پر کھڑا کرسکتے ہیں۔ اگر ایک پاکستانی ترکی کے زلزلہ زدگان کی تیس ملین ڈالرز کی مدد کرسکتا ہے۔ تو سینکڑوں ایسے پاکستانی بزنس مین موجود ہیں جو پاکستان کو ملئنز آف ڈالرز کی امداد فراہم کرسکتے ہیں۔ لیکن deficit of trust ہے۔ کم پر اعتبار اور اعتماد کیا جائے۔؟ وزیراعظم کا ٹوپی ڈرامہ کو ترکی میں نہیں چلنے دیا گیا۔ ایک پاکستانی کا ترکش ایمبیسی میں تیس ملین ڈالر کی ڈونیشن نے پوری دنیا کے میڈیا پر پاکستانی کی جنراسٹی کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے انہیں نہیں معلوم کے مسلمان کے دل ایکدوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مگر ہمارے سفاک حکمرانوں نے ملک کو کنگال کردیا ہے۔ ستر سال سے خطرناک شیاطین اور آسیب پاکستان پر قابض ہیں۔ جنہوں نے غریب کو غریب تر کردیا ہے۔ مڈل کلاس طبقہ ختم کردیاہے۔ لوگوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کردیا ہے۔ تعلیم اور ہیلتھ کو نظر انداز کردیاہے۔ کس کس چیز کا رونا روئیں۔ کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جہاں خیر کی خبر ہو۔ تمام ادارے تباہ۔ ریلوے، پی آئی اے، ٹرانسپورٹ، سٹیل مل پر ڈاکوں کا راج۔ ہمارے پڑوسی ممالک بلٹ ٹرین چلا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان بننے کے وقت کی ریلوے بوگیاں چل رہی ہیں۔ کسی ادارے میں کوئی ریفارمز نہیں ۔ ہر طرف مایوسی اور پریشانی ہے۔ پوری دنیا پر حکومت کرنے والے انگلینڈ کے وزیراعظم کے پاس استعمال کے لئے صرف ایک گاڑی ہے۔ وزرا اپنی گاڑی ،ٹرین اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ کابینہ صرف سات گاڑیاں استعمال کرتی ہے۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ،وزرا بیوروکریٹس اسی ارب روپے کا پٹرول سالانہ استعمال کرتے بیں۔ ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں ان بدمعاشوں کے زیر استعمال ہیں۔ ان میں ارکان اسمبلی،ارکان سینٹ، وزرا صوبائی اسمبلیوں کے وزرا ، انکے بچوں کو سکول چھوڑنے، سکول سے لینے ، شاپنگ کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ ریاست مدینہ کے علمبردار عمران خان نے ہیلی کاپٹر پر ایک ارب روپے کا پٹرول پھونک دیا۔ بائیس سو لگثری گاڑیاں گزشتہ ایک سال میں امپورٹ کی گئی ہیں۔ بجلی،گیس،میڈیکل ، ادویات فری ۔ملک کو لوٹنے والے ارکان اسمبلی سبھی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان میں آٹا نہیں مل رہا۔ لوگ لائنوں میں کھڑے ایکدوسرے سے لڑ رہے بیں۔حکومت اور اپوزیشن کرسی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ عوام کے مسائل کا کسی کو ادراک نہئں۔عوام فاشسٹوں اور جانوروں میں پھنس چکے ہیں۔ جن کی سفاکی مہنگائی کے طوفان۔ بیروزگاری اور بھوک کی ہولناکی دیکھنا پڑ رہی ہے۔ وزرا اور اپوزیشن ہر گھنٹے بعد ایک دوسرے کو پریس کانفرنسوں میں متعون کرتے ہیں۔ بس یہی انکی کارکردگی ہے۔ اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں کہ جیسے عوام ہونگے اللہ ایسے ہی حکمران مسلط کرتا ہے۔ ہر جگہ دو نمبری،جھوٹ، دھوکہ اور فراڈ ہے۔ کوئی چیز خالص نہیں۔ کوئی سسٹم اور میکنزم نہیں جو مجرموں، ظالموں اور سفاک درندوں پر ہاتھ ڈال سکے۔ جہاں حکمران چور،لٹیرے، قاتل اور جانور ہوں۔ وہاں آوے کا آوا ہی بگڑ جاتا ہے۔
میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی ۔ انہی وحشی درندوں کے حصار میں قید رہی۔ انہی مجرم وان کو ووٹ دیتے رہے تو یہ عوام ۔ ان پارٹیوں اور حکمرانوں سے ایسے ہی ذلیل و رسوا ہوتے رہنگے۔ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ایک ہندو اسمبلی ممبر نے سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ۔ مسلمانوں کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف متوجہ کراتے ہوئے کہا۔ کہ ہم ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ سیرت کو فالو نہیں کرتے ۔اسکا اسمبلی میں خطاب فکر انگیز تھا۔ عشق مصطفے کے دعوے اور فتوے تو ہم بہت لگاتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ کے فرامین کے یکسر انکاری رہتے ہیں۔
قارئین کرام !۔ آپ کان سیدھا پکڑیں یا اُلٹا۔ آپ ان کو اللہ رب العزت کی کبریائی کا واسطہ دیں یا انکے سامنے دوزخ کی آگ لا کر رکھ دیں ۔ یہ قومی درندے ۔ مملکت خدادا کی ساتھ یہی برتا کرتے رہینگے ۔ ان جانوروں کو نشان عبرت بنانے کیلئے ۔ اور مملکت کو ترقی کی راہ پر چلانے کیلئے واحد حل جماعت اسلامی ہے۔ ستر سال ان درندوں کو بار بار دیکھ کیا۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ایماندار،دیانتدار، محب وطن، عوام دوست قیادت کو منتخب کیا جائے ۔ جن کے ارکان کا کردار بے داغ ہو ۔؟ وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ صرف اور صرف جماعت اسلامی اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ پاکستان کو خوشحال پاکستان بنا سکتی ہے۔ انصاف ہر مبنی معاشرہ قائم کرسکتی ہے۔ مجرموں، قاتلوں اور ڈاکوں کو قانون کے کٹہرے میں لا سکتی ہے۔ خالص اور کم قیمت چیزیں فراہم کرسکتی ہے۔ لوٹی دولت اور ناجائز لوٹ مار کا پیسہ انکے پیٹ پھاڑ کر نکال سکتی ہے۔ یہی جماعت ہمارے مستقبل کے معمار تیار کرسکتی ہے۔ اسکے علاوہ کوئی ایسی جماعت نہیں جو بے لوث خدمت کرتی ہو۔
٭٭٭