کالج کے زمانہ میں یہ شعر الیکشن کے موقعہ پر لکھا پڑھا جاتا تھا۔
کی میرے قتل کے بعد اس جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
آج یہ شعر اپنے بہن بھائیوں کی بگڑتی اولادوں پر پڑھا جا رہا ہے۔ ہفت رواں ایک تبلیغی سفر سے واپس آ رہا تھا کہ راستے میں مجھے ایک بھائی نے کال کی کہ کیا ممکن ہے ہمارے گھر ایک چائے کا کپ پی لیں ؟ میں مسلسل ناقدری کے بعد اب کہیں جاتا نہیں ہوں۔ نہ ہی تھینک لیس جاب کرنے کو جی کرتا ہے ۔ تھک سا گیا ہوں مگر ان بھائی کی بھرائی ہوئی آواز سے احساس ہوا کہ شاید بے حد پریشان ہیں۔ جب ان کے دولت خانہ پر پہنچا تو چائے تو درکنار جام آب بھی گوارا نہ ہو سکا۔ ان کے صاحب زادوں کو ہم جنس پرستوں کا دلدادہ دیکھ کر اوسان خطا ہو گئے۔ ان لڑکوں سے اس قدر بدبو تھی کہ گھونٹ پانی کا نہ پی سکا ۔ مجھے جلدی انکا گھر چھوڑنا پڑا۔ لڑکیوں کی طرح انہوں نے بال بنوا رکھتے تھے۔ لڑکیوں کی طرح بالیاں پہنی تھیں۔ ٹیٹوئنگ سے سارا بدن تباہ کر رکھا تھا۔ میری بات سننے کی بجائے وہ بار بار ایس ایم ایس کرتے جارہے تھے ۔ ان کے والدین جب انہیں بلاتے تو وہ ان کی تذلیل میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بدمعاش ان کے گھر آیا جو قوم لوط سے تعلق رکھتا تھا اور لڑکے رفو چکر ہو گئے۔ یہ سینکڑوں واقعات میں سے ایک واقعہ ہے۔ ان والدین کو آجکل بڑا احساس ہے کہ ہم سے بڑی کوتاہی ہوئی۔ کاش ! ہم انہیں سنڈے یا سیٹر ڈے اسکول لے گئے ہوتے۔ کاش! ہم نے مراکز دین کی مخالفت نہ کی ہوتی۔ کاش! ہم نے علما سے دشمنی نہ کی ہوتی وغیرہ وغیرہ۔ میں لیٹ نائٹ ان کے گھر سے نکلتا ہوں مجھے بہت دور جانا ہوتا ہے۔ نماز شب (قیام اللیل)بھی رک کر پڑھنی ہے۔ اسی دوران مجھے ایک اور کال آتی ہے ۔ یہ آپ مانیں گے کہ نہیں ؟ ایک ایسا باپ چیخیں مار رہا ہوتا ہے۔ جسے اس کی بیٹی مار رہی ہوتی ہے۔وہ خدا کے واسطے دیتا ہے۔ چیختا چلاتا ہے۔ اس کی حال ہی میں دل کی سرجری ہوئی ہے۔ ڈاکٹرز نے بیڈ ریسٹ بتایا ہے۔ میں حیران ہوتا ہو ں کہ بیٹی باپ کو مار رہی ہے جو ماں باپ بچوں کی ہائی جین سے لے کر تعلیم تک ہر خدمت کرتے ہیں۔ کیا وہ مار کھانے کے لئے رہ گئے ہیں؟ ان بھائی سے جب میں نے وجہ پوچھی کہ یہ کیوں مار رہی ہے؟ تو بیچارے قسمت کے مارے رورو کر بتانے لگے اسکی شادی کی تھی ۔اس نے غنڈوں کے ذریعے اپنے شوہر کو قتل کرانے کی کوشش کی۔موت کے منہ سے تو اسکا شوہر نکل آیا مگر یہ غنڈوں کے جنسی چنگل سے نہیں نکل سکی۔ اسی دوران میں ان کی ماں فون پکڑ کر کہتی ہے یہ مجھے بھی مارتی ہے، ڈاکٹر بھائی جان ! کوئی سورج ایسا طلوع نہیں کرتا کہ ہم اس سے مار نہ کھاتے ہوں۔ میں ہوٹل میں رک جاتا ہوں کہ تہجد قضا نہ ہو۔ مجھے اعمال و وظائف کے بعد فجر کی ادائیگی کے باوجود نیند نہیں آتی ہے یہ دونوں سین مجھے بلاد مغرب میں رہتے بھائی بہنوں کی اولادوں کے تاریک مستقبل کے خطرے کے پیش نظر مضطرب کر دیتے ہیں۔ اس دوران ناشتے کا ٹائم ہو جاتا ہے۔ ناشتے کے بعد میں دوگھنٹے آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔کیونکہ مجھے دن بھر پھر کام کرنا ہوتا ہے۔ میں جب ہوٹل سے چیک آئوٹ کرتا ہوں تو اپنے وطن کی عزت کو اغیار کے ہاتھوں تاراجی کے لئے دام صیاد میں دیکھتا ہوں۔ غیرت ملی کے تحت میں شکار سے نہیں شکاریوں سے شکار کا وطن پوچھتا ہوں تو میرے پائوں تلے زمین نکل جاتی ہے۔ اور میں سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آیاہمارا یہاں یہ مستقبل ہے؟
مجھے اگلے روز جہاز پر دوروز کا سفر کرنا ہے۔سفر آٹھ گھنٹے کا ہے۔ رات کے وقت کی فلائیٹ بزنس کلاس کی فرنٹ سیٹ ملتی ہے۔ وہاں ایک سیٹ چھوڑ کر ایک لڑکی بیٹھی ہے۔ جس نے نیم عریانیت سے مغربیت کا ریکارڈ توڑ رکھا ہے۔کوئی اور سیٹ خالی نہیں ہوتی ہے۔ جب وہ لڑکی اترنے لگتی ہے تو ہماری زبان اردو بولتی ہے۔ جس سے حیرت کی انتہا ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ کی بات میں راستہ گزرتے ہوئے ایک اسلامک سینٹر میں نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہوں۔ وہاں ایک لڑکے کو ایک گینگ کے ساتھ دیکھتا ہوں وہ ناشائستہ حرکات کے مرتکب بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس لڑکے سے پوچھتا ہوں تم کو ن ہو ؟ تووہ جو جواب دیتا ہے وہ میرا دماغ کا میٹر گھما دیتا ہے۔
میں 1990 سے آج تک ایک طرف اپنی نسل جوان کو شرافت کا پیکر بھی دیکھا ہے۔ جبکہ دوسری طرف گمراہی میں اٹی نسل جوان بھی کم نہیں ہے۔جسکی وجہ سے کتنے اکبر الہ آبادی زمین میں غیرت قومی سے گر رہے ہیں، میری ان سطور کو صرف اصلاح کے جذبہ کے تحت لیا جائے اور مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر کی جائیں تاکہ نسل جوان بہکنے سے بچ جائے۔
1. والدین کم از کم ہفتہ وار بچوں کے ساتھ بیٹھ کر قرآن پڑھیں۔
2. بچوں کو مسجد ضرور لے جائیں۔ قرآن و اخلاق سکھائیں۔
3. انہیں روزانہ سیپارہ پڑھائیں۔
4. ان کے فونز کے پاسورڈ خفیہ ہڈن نہ رکھنے دیں۔
5. چارجنگ کے لئے بچوں کو کہیں فون کمرے میں نہ رکھیں۔چارجز نہ دیں
6. ایس ایم ایس اور ای میلز چیک کریں۔
7. زیادہ سوشیالوجی سے والدین اجتناب کریں۔
8. انہیں مادر وطن سال میں ایک بار ضرور بھیجیں۔
9. کالجز میں ڈومز میں ان کے رومیٹ اپنے ہم مذہب بنائیں۔
10. پبلک اسکولز کی بجائے پرائیویٹ اسلامک اسکولز میں پڑھائیں۔
11. ہفتہ یا مہینہ میں ایک روز عالم دین کو اپنے گھر بلائیں۔
12. جن کے بچے مسجد نہیں جا سکتے وہ ریکارڈ ٹیپ یا آن لائن قرآن پڑھیں۔
13. مذہبی پروگرامز میں بچوں کو ہمراہ لے جائیں۔
14. انگریزی کی بجائے گھر میں اپنی زبان بولیں۔
اللہ ہماری نسل جوان کی حفاظت فرمائے اور غافل والدین کی آنکھوں کے پردے زائل کرے۔ آمین
٭٭٭