قارئین !۔ تاریخ اسلام دردناک، کربناک اور افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ اسلامی کے ابتدائی ایام میں خاندان نبوت کے ساتھ کربلا کا واقعہ انتہائی دردناک واقعہ تھا۔ تاریخ ملوکیت کی بدمعاشیوں سے بھری پڑی ہے۔ اقتدار کی ہوس نے رسول اللہ کے ساتھیوں تک کو نہ چھوڑا۔ اسی ملوکیت نے باپ سے بیٹے ۔سے باپ کو مروایا۔ بھائی نے بھائی کو ۔ بیوی نے خاوند کو مروایا۔ان واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ اقتدار اور طاقت کا نشہ انسان کے اندر حیوانیت پیدا کرتا ہے۔ رشتے ،احساس ،اقدار سبھی ختم ھو جاتا ہے۔طاقت کا نشہ فرعونیت کو ابھارتاہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں ہی تاریخ کے افسوسناک واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔ قارئین کرام۔! خضرت انسان مٹی سے پیدا ھوا ۔اسی مٹی میں دوبارہ مٹی ھو جائے گا۔ خالی ہاتھ آیا اور خالی ہاتھ واپس قبر میں جائے گا۔ اسکا آخری لباس کفن ،بغیر کسی جیب کے ہے۔ پھر نشہ کس چیز کا۔طاقت، غرور، تکبر اور فرعونیت سانس ختم ھوتے ہی ھواں میں اڑ جاتی ہے۔سوال ھے کہ اگر خالی ہاتھ اور بغیر کی منصب کے اللہ کے خضور پیش ھونا ہے پھر خضرت انسان اتنا مغرور اور متکبر کیوں ہے۔ زمین پر کیوں خدا بنا بیٹھا ہے۔اسے دوسرے لوگ کیڑے مکوڑے اور ہیچ کیوں نظر آتے ہیں۔ ؟کیا خدائی کا دعوی کرنے والے بڑے بڑے فرعون، نمرود اور شداد باقی رہے؟۔کیا طاقت کے نشہ اور گھمنڈ میں اکڑنے والے باقی رہے؟آپکا جواب ھو گا بالکل نہئں۔تو پھر اکڑ کیوں۔؟ صرف ایک ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ جس نے کائنات کے ذرے ذرے کی تخلیق کی ہے۔خضرت انسان کو تخلیق کیا ہے۔ قارئین کرام! ھم مسلمان ہیں۔ کلمہ گو ہیں ۔ اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں ۔اسکی ربوبییت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسے اپنا الہ اور معبود مانتے ہیں۔اس سے روگردانی کو کفر سمجھتے ہیں ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہبر، ہادی اور رہنما مانتے ہیں۔ اپنے ماں باپ ۔بیوی بچے اور مال و دولت سے بڑھ کر انہیں سمجھتے ہیں۔اس سے مفر کو کفر سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ قرآن میں اور نہ سیرت رسول اللہ میں کوئی ایسی چیز ملتی ہے جو انسانی اقدار کی ترجمانی نہ کرتی ھو۔ جو انسانوں کو غلامی سے نہ نکالتی ہو۔ انسانوں کو آسانیاں فراہم نہ کرتی ھو۔ اخلاقیات اور تہذیب نہ سکھاتی ھو۔انسان اور حیوان میں فرق نہ بتاتی ھو۔کیا ھم نے بحثیت ا انسان اور بحثیت مسلمان کبھی غور کیا ہے کہ ھمارا مقصد زندگی صرف بھلائی اور خیرخواہی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ھم زمین پر خدا بن بیٹھے ہیں۔ ؟ ھماری گردنوں میں تنا اور اکڑ ہے۔ چھوٹے چھوٹے منصب پر فرعون بن جاتے ہیں۔ انسانوں کو بھٹر بکریوں کیطرح ہانکتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قتدار، یہ عہدہ اور منصب صدا بادشاہی کا مظہر ہے۔ خالانکہ ھم جانتے ہیں کہ صدا بادشاہی نہ کسی پیغمبر کے پاس ہے اور نہ رسول کے۔ صدا بادشاہی صرف اللہ وحدہ لاشریک کے پاس ہے۔ اسی کی حاکمیت ہے۔ اسی کی کائنات ہے اور جس میں اسی کا حکم چلے گا۔بحثیت مسلمان اگر غور کریں تو ھماری تاریخ کرب،اور درد کا شکار رہی ہے۔ ھم نے نہ تاریخ سے سبق سیکھا ھے۔ اور نہ تاریخ کی تلخ حقیقتوں پر غور کیا ہے ۔ اگر بحثیت پاکستانی ہی اپنا مشاہدہ کر لیں تو اندازا ھوتا ہے کہ تاریخ پر غور نہیں کیا۔ وطن کے حصول، مقاصد اور قربانیوں کو نہیں سمجھا۔مملکت خداداد کے قیام کے مقصد کو نہیں سمجھا۔ اگر اسکے مقاصد کو سمجھتے تو آج شخصی آزادی کے قائل ھوتے۔ اخلاقی قدروں کو پامال نہ کرتے۔ انصاف فراہم کرتے۔ ہر سال تئیس مارچ اور چودہ اگست کو جھوٹی اور منافقانہ تقاریر صرف دھوکہ اورمکروفریب ہے۔ پاکستان میں جتنے حکمران گزرے وہ تاریخ کے انتہائی تلخ اور سبق آموز اوراق ہیں۔لیکن ھم نے ان اوراق کو پلٹنا گوارا نہیں کرتے۔ جنہوں نے اس ملک کو کولوٹا ہے۔ ھمارے بچوں کا مستقبل تباہ کیا ھے۔قرضوں کے بوجھ تلے اور آئی ایم ایف کی غلامی میں جکڑا ہے۔بِحیثیت قوم ہم نے اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینی ہے۔اسی زرداری، اسی نواز شریف، اسی مذہبی درندے فضل الرحمن ،اسی بوری بند الطافی گروپ سے دوا لینی ہے۔چند عطار کے لونڈوں نے عوام کو جعلی نعروں کے طلسم میں گھیر رکھا ہے۔ جنہوں نے ملک کے چپے چپے پر تعفن پھیلا رکھا ہے۔ ھم آنکھیں اور کان بند کرکے انہی عطار کے لونڈوں سے اپنے دکھ اور درد کی دوا لینے نکل پڑے ہیں۔ جنہوں نے ہماری آئیندہ نسلوں کا مستقبل تباہ کیا ہے۔قوم اگر چوروں سے چھٹکارا چاہتی ہے تو حل صرف جماعت اسلامی ہے ۔ یہی پہلی اور آخری آپشن ھے۔جو ملک کو بخفاظت اصل منزل کی جانب لے جائے گی۔ پیپلز پارٹی ۔ن لیگ اور پی ٹی آئی پہلے اسٹبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرتے ہیں ۔ اقتدارملتے ہی اداروں سے ٹکرا کی پالیسی اختیار کرتے ہئں۔ھہی کام اسٹبلشمنٹ کرتی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو آج تک کوئی سیاسی جماعت یا رہنماہضم نہئں ھوا۔اسٹبلشمنٹ میں آئین توڑنے والے۔پلاٹوں پر قبضہ کرنے والے جرنیل اور سیاسی جماعتوں میں انکے دم چھلے ڈاکو بیٹھے ہیں۔کامیڈی ڈراموں کے اداکار سیاستدان۔سسکتی ،بلکتی عوام کو بیووقوف بنا رہے ہیں ۔پیڈ اینکرز اور لفافے صحافی ،میاں نواز شریف کے آنے ۔نہ آنے اور استقبال کے لئے ہلکان ھورہے ہیں۔ جیسے کوئی کشمیر اور اسرائیل کو فتح کرکے آرہا ہے۔ بے شرم اور بے حیا اشرافیہ ایک وقت کی روٹی سے مجبور لوگوں کا معیار زندگی بہتر نہیں کرسکا۔ ایک پارٹی کی مقبولیت کے خوف سے فاشسٹ حربے استعمال کئی جارہے ہیں۔ آرمی اسٹبلشمنٹ نے ون سائیڈڈ پال ایسی اپنا کر برسوں کی عزت کو حال میں ملایا ہے۔ جو بدنامی کمائی ہے۔میری آرمی اسٹبلشمنٹ کے ذمہ داران سے استدعا ہے کہ سرحدوں کی خفاظت پر نگاہیں رکھیں۔ لوگوں کو ننگا کرنا، تذلیل کرنا ، اغوا کرنا، ٹارچر کرنا، عورتوں اور بچوں پر ظلم کرنا یہ فوجیوں کا کام نہیں ہے۔ ملک کے کونے کونے میں دہشت گردی میں تیزی آئی ہے۔ چھیناجھپٹی، لوٹ مار ڈکیتیاں،قتل وغارت گیری،کے وارداتیں انتہائی حد تک بڑھ گئی ہئں۔ کوئی آدمی اور گھر مخفوظ نہیں۔بیرونی ایجنسیاں پاکستان میں متحرک ھو چکی ہیں ۔ لیکن ھمیں پی ٹی آئی اور عمران خان کو نشان عبرت بنانے کی دھن سوار ہے۔ پی ٹی آئی کا ووٹر فوج کا سپورٹر تھا۔ جسے مقابلے میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔جنرل عاصم منیر اور باجوہ کی باقیات ملک کو انتہائی خطرناک موڑ پر لی آئی ہیں۔انکی ہٹ دھرمی اور تکبر نے ملک کو ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے۔ حالانکہ معاشی دہشت گردوں کے گرد تنگ کرنے کی ضرورت تھی۔لیکن انہیں کھلی چھوٹے دے دی گئی ہے ۔ عدالتوں کے convicted نگران حکومت میں وزیر بنا دئیے گئے ہیں۔ ایک جاہل مطلق اور چھچھورے شخص کو نگران وزیراعظم بنادیا گیا ہے۔جو عقل کل بن بیٹھا ہے۔جس کا کام نوے دن میں الیکشن کروانا تھا وہ بڑے بڑے معاشی فیصلے اور خارجہ پالیسی کو سنھبال بیٹھا ہے۔ مقتدر حلقوں کوفی الفور منصفانہ اور شفاف الیکشن کروانے چاہئیں تاکہ ملک کی اقتصادی معاملات صیح سمت کا تعین کرسکیں۔ انقلابی لیڈراور انقلاب کو سلا دیا گیا۔ جعلی انقلابیوں کا نیا بیانیہ فیل ھوگیا۔نوسرباز،اورلٹیرے قوم کو ایک بار پھر بیووقوف نہ بناسکے۔مافیاں ۔ترلے،منتیں شروع ۔ مفرور نواز شریف پرانے بیانئے سے تائب ہوکر نیے بیانئے کے ساتھ واپس آرہے ہیں ۔ تیس سال حکومت کرنے والوں نے پاکستان کا جو حشر کیا وہ قوم آج بھگت رہی ہے۔اب وہ آکر کونسا تیر چلا لینگے۔ مریم کہتی ہیں کہ پاپا جانی پہلے سے طاقتور ھو کر آئینگے ۔ چار سال سے علاج کے لئے بیرون ملک نظام اور سسٹم کو چیلنج ھوں۔ایسے نظام پر لعنت جو ایک مجرم کے سامنے ہاتھ بںدھے کھڑا ھو۔ ایک سزا یافتہ مجرم بڑے مجرم کے لئے ضامن ھو کہ چار ہفتوں میں واپس آئے گا۔اور وہ ضامن مجرم وزیراعظم بنوایا جائے۔ حمایتی ججز اور جرنیل سینٹر بن جائیں۔ ایسے نظام پر لعنت جہاں مینجڈ فیصلے کئے جائیں۔ ایک سو چالیسواں نمبر جب عدلیہ جا ھو ۔ایسے ججز کو ڈوب مرنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو لیول پلینگ فیلڈ مہیا کردی گئی ھے۔ عدالتوں سے بھی انہیں ریلیف۔ کرپشن میں بھی ریلیف اور جرائم کی بھی معافی۔ عوام انہی چوروں کے سامنے آنسو بہاتے ہیں ۔ بجلی کی بلوں اور مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ انہی مجرموں۔ انہی معاشی دہشت گردوں ۔ اور انہی عطار کے لونڈوں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں ۔ قصائیوں سے مرہم تلاش کرتے ہیں۔ بحیثیت قوم ھم اندر سے منافق ہیں۔ یہ کیسے ممکن ھے کہ کوئی مجرم آپکا حکمران ھو۔ اور عدالتیں،فرشتے اور جرنیل خاموش رہیں۔ ؟ ہر ادارے میں کتی چوروں سے ملی ھوئی ہے۔یہ کیسا نظام ھے کہ طاقتور کے سامنے انصاف جھکتا ھے ار کمزور کو لٹکاتا ہے۔ انصاف کے ترازو جب برابر ھونگے تب معاشرہ ترقی کرئے گا۔وگرنہ عوام اسی طرح، بلکتے اور سسکتے رہیں گے۔
٭٭٭