ہم جب یہ کالم لکھنے بیٹھے ہیں تو ہمیں مرزا غالب کا ایک شعر بار بار یاد آرہا ہے!
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ ر کھوں نوحہ گر کو میں
وجہ اس معروض کی یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے راقم کو اپنے کالموں میں نوحہ گری ہی کرنا پڑ رہی ہے، خواہ وطن عزیز کے حوالے سے ہو،موجودہ وطن کے تناظر میں یا اکناف عالم کے تعلق سے کی جائے۔ ایسا نہیں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، ایک صحافی ہوتے ہوئے ہمارا یہ فریضہ ہے کہ اپنے قارئین کو مقامی و عالمی منظر نامے میں ہونیوالے سیاسی، سماجی، بین المملکتی حالات و واقعات، تغیّر و تبدل اور معروضی حالات نیز ان کے اثرات سے قارئین کو آگاہی دیتے رہیں اور ان پر اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار بھی کریں۔
شومئی قسمت کہ گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی، معاشی، عالمی برتری و مذہبی بنیادوں پر کرّہ ارض اختلافی و نزاعتی کشیدگی، جھگڑوں اور تباہی سے شدید متاثر نظر آتا ہے یہ صورتحال اس حقیقت کی نشاندہی کر رہی ہے کہ پیش آمدہ وقت کسی بھی صورت عالمی و بین المملکتی حوالے سے پُر امن نہیں ہوگا۔ دنیا پر اپنی برتری کیلئے بلاکس کی تشکیل کا کھیل دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور مملکت کے مفاداتی اقدامات اور نزاعی حالات پیدا کر کے مختلف ممالک میں محاذ آرائی، اس کے نتائج و اثرات اور خصوصاً موجودہ صدر و ایڈمنسٹریشن کی حکمت عملی کے حوالے سے ہم اپنے کالموں میں صراحت سے اپنا مؤقف واضح کر چکے ہیںپاک بھارت محاذ آرائی ہو یا روس یوکرین جنگ،امریکی خصوصاً ٹرمپ کا کردار واضح ہو کر سامنے آچکا ہے کہ ایک جانب اپنے مفادات کو مقدم رکھا جائے تو دوسری جانب امن کا چیمپئن بن کر نوبل امن انعام کا حصول یقینی بنایا جائے۔
گزشتہ جمعہ کو اسرائیل کے ایران پر حملے کا اقدام بھی ایک جانب ایران کے حوالے سے اپنے مشن کی تکمیل تو دوسری جانب گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جانا ہے، ایران پر نیوکلیائی پابندیوں اور صدر اوبامہ کے دور میں ہوئے معاہدے کے تناظر میں مذاکرات کے چھٹے دور سے 60 روز کا ڈول ڈالا گیا اور 60 دن میں ایران پر رضا مندی و جواب کی پابندی لگائی گئی، ہوا یہ کہ ایک روز پہلے IAEA کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی رپورٹ پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا، جو کچھ اس اجلاس میں ہوا اس سے قارئین بخوبی واقف ہیں۔ ایک جانب صدر ٹرمپ عمان میں اجلاس کی نوید سنا رہے تھے تو دوسری جانب نیتن یاہو کو کسی اقدام سے گریز کی تلقین کر رہے تھے مگر ہوا کیا 61 ویں روز اسرائیل نے ایران کے اوپر شدید ترین حملہ کر کے جس طرح ایران کی سیاسی و عسکری قیادت و نیوکلیائی ذمہ داروں کو شہید کیا اور انسٹالیشنز کو تباہی سے دوچار کیا اس کی مثال تاریخ کی سفاک ترین ہی کہی جا سکتی ہے۔ اس سفاکیت میں موساد کیساتھ ”را” خود ایران میں موجود غدار عناصر کی سازش اور امریکی انتظامیہ کی دو رُخی مکمل طور سے واضح ہو چکی ہے، امریکی وزیر خارجہ کا بیان کہ اسرائیل کے حملہ میں ہمارا کوئی کردار نہیں اور صدر ٹرمپ کا اظہار لا علمی محض اس لئے تھا کہ خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے سپورٹرز برطانیہ، فرانس، جرمنی اور مغربی ممالک زیر اثر خطے کے ملکوں میں ان کے اثاثہ جات، افراد، مفادات اور لوگوں کو ایران کی جوابی کارروائیوں و نقصانات سے بچایا جا سکے۔ جنگ تاحال جاری ہے اور ایران اپنے وسائل و عوام کے جذبے، عزم و اتحاد سے اسرائیل پر قیامت ڈھا رہا ہے۔ مغربی طاقتوں اور ان کے زیر اثر مسلم ممالک کی جانب سے رکاوٹوں کے باوجود ایران کی جوابی کارروائیوں نے نیتن یاہو اور اسرائیلی انتظامیہ کو ان کے آقائوں کو تمام تر سپورٹ کے باوجود مرگ کی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے۔
جنگ کتنی طویل ہوگی اس کا کوئی تعین تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اسرائیل کی تباہی و بربادی کے پیش نظر صدر ٹرمپ، امریکی انتظامیہ، مغربی ممالک جنگ بندی کیلئے مضطرب نظر آتے ہیں۔ یورپی ممالک نے اجلاس طلب کر لیا ہے، فرانسیسی صدر اور فرانس نے کہا ہے کہ ایران کیخلاف کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ صدر ٹرمپ روسی صدر کی ثالثی کے خواہشمند ہیں جبکہ خود ریپبلیکن اراکین اسرائیل کو خود اپنی جنگ لڑنے دیں، کا مؤقف اختیار کر کے اس جنگ کو ٹرمپ کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ٹرمپ کا تازہ ترین بیان بلی کے تھیلے سے باہر آنے کے مترادف اوردورحی کا واضح مضمر ہے،ایران کو سرنڈر کرنے کا مطالبہ اور موجودہ کشیدگی میں لفظWEکا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اور اتحادی وہی راستہ ایران کے خلاف اختیار کرنا چاہتے ہیں جو عراق کے خلاف کیا تھا۔جبکہ عراق کے خلاف مہلک ہتھیاروں کا دعویٰ غلط ہوا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران کے خلاف بھی یہی کچھ منصوبہ بندی ہے تاکہ گریٹر اسرائیل کی تکمیل یقینی بنائے جائے۔ یہ تمام معاملات اپنی جگہ لیکن ہم اس سچائی کے اظہار سے ہر گز گریز نہیں کرینگے کہ ایران و اسرائیل جنگ یہودی بلکہ صہیونی مافیا کے امریکی و مغربی حامیوں کے اشتراک سے مسلم اُمہ کو ختم کرنے کا ایجنڈے کو تواتر کئی برسوں خصوصاً پچاس سال سے جاری ہے۔ مصر کی جنگ سے لے کر لیبیا، اُردن، عراق، یمن، شام و دیگر مسلم ممالک کو تاراج کرنے عرب مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اپنا فرمانبردار بنا کر اب ان کا ہدف ایران ہے جو ان کیلئے حلق کی ہڈی بن گیا ہے اور ہمارے مؤقف کے مطابق اسرائیل کی خوفزدگی و سراسیمگی کا سبب بنا ہوا ہے مسلم دشمنوں میں خطۂ زمین پر دو ہی ممالک بھارت اور اسرائیل ہیں جو مسلم اُمہ و مملکتوں کے درپے ہیں اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ ایران پر13 جون کو حملہ کرنے کے بعد نیتن یاہو نے بھی وہی مؤقف اپنایا تھا جو مودی نے چار روزہ جنگ میںشکست کھانے اور رسوائی کے بعد پاکستانی قوم سے مخاطب ہو کر کیا تھا اور مزید ذلیل ہوا تھا۔ نیتن یاہو کے 2011ء کے ماضی کے خطاب اور حالیہ بیان بھی اس حقیقت کے غماز ہیں کہ ایران کیساتھ اس کا ٹارگٹ پاکستان بھی ہے، تاہم چار روزہ پاکستان بھارت جنگ میں اندازہ ہوگیا ہے کہ پاکستان تر نوالہ نہیں جسے وہ عراق و شام کی طرح نگل سکے گا۔ الحمد اللہ پاکستان ایک نیوکلیائی طاقت ہونے کیساتھ ساتھ مضبوط و مستحکم ریاست اور جذبۂ و سائل و متحد قوم کا قلعہ ہے۔ پاکستان کیخلاف سازشوں یا کسی قسم کے جارحانہ اقدام کے نتیجے میں اسرائیل کے گریٹر کی خواہش کے برعکس موجودہ اسرائیل کا عدم وجود ظہور پذیر ہی ہوگا۔ حماس اور مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے ار ایران یا پاکستان سے محاذ آرائی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ البتہ وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلم اُمہ اپنے مفادات سے بالا ہو کر یکجہتی و اتحاد پر عمل کرے۔
٭٭٭














