محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ہر چند آجکل دنیا میں جو روش چل نکلی ہے وہ نہ ہی کوئی نئی چیز ہے اور نہ ہی ایسی سازش جس کا اس سے قبل کوئی تذکرہ نہ ہوا ہو اور اس بابت عوام کو آگاہی حاصل نہ ہو ۔ امام حسین کا ایک قول ہے (کسی بھی قوم کا اثاثہ اس کے صاحبان علم ہوتے ہیں) اب اس قول میں موجود پیغام کی گہرائی اور افادیت کو اغیار شائد بہت پہلے سمجھ چکے تھے لیکن ہم بحیثیت مسلمان اس کو نہ سمجھ سکے اور اگر سمجھے تو اس کیلئے جو ضروری انتظامات تھے وہ کبھی نہ کیئے اور اسکی سزا ہم کو ہر دور میں جھیلنا پڑی کیسے مجھے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں اشاروں میں بات سمجھ جائیں اور جو مثالیں میں نیچے دونگا ان کو پڑھ کر آپ بخوبی سمجھ جائیں گے میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں ۔ ایک ایسا ملک دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح جو پابندیوں کے باوجود اپنا مقام بنارہا ہے اسکو تجارت کی اجازت نہیں جبکہ سائنس میں آگے ہے وہاں موجود ملا کو سائنسی علوم میں رکاوٹ بنتے نہ دیکھا بلکہ جدید علوم کو دفاع کیلئے استعمال کیا جانا میڈیکل شعبے میں ترقی عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنا ایک عالمی جرم سمجھا جانے لگا ایسا لگا کہیں یہ نہ ہوجائے جو ظالمان مذھب اور لیڈر ہم نے بنائے دو سو سال بعد امہ کو ان کے قدموں پر چلنا ہے اور انہی کو اپنا مسیحا سمجھنا ہے یا جو دیگر کل کے شدت پسند مطلوب تھے آج اچھے نام سے لیڈر بناکر پیش کیئے جارہے ہیں کہ چلو آج سے یہ اچھے بچے بن چکے ہیں انکو یہ ذمہ داری سونپی جائے صاحبو میں ٹہرا ایک عام انسان اور ایک لکھاری اس سے زیادہ کچھ نہیں جو لکھتا ہوں ذمہ داری پر اور ساتھ اپنا اظہار خیال بھی کردیتا ہوں بس ایسا اسلامی ملک جہاں واقعی اسلام ہو آذادی مزھب کے ساتھ سائنس پر پابندی نہ ہو اور وہاں کا ملا شدت پسند نہ ہو بلکہ اپنے عقائد اپنے پیروکاروں کی حد تک رکھے کوء جبر نہ کرے اگر دیگر مسالک ملک میں ہوں وہاں کی مساجد کو تحفظ ہو کبھی کوء اہل اقتدار مخالف مسالک کی مسجد میں جاکر نمازیوں کو شھید نہ کرے نہ ان پر اپنے مسلک کو تھوپے تو ایسا کام کرنے آج کا ناقابل قبول ملک اور ملا اور نظام ہے کیوں یہ سمجھ سے باہر ہے – سائنسدان اور بالخصوص ایٹمی سائنسدان کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں جو دفاع کی خاطر ریڑھ کی ھڈی کی طرح ثابت ہوتے ہیں ان کا مذھبی ہونا بھی واجبی سا ہوتا ہے زیادہ لکھے پڑھے لوگ کسی بھی مسلک سے ہوں وہ مذھب کے معاملے میں سخت گیر کبھی نہیں ہوتے اس کا مطلب اگر کوئی اللہ کی گواہی اور نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین پر یقین رکھتا ہو اور ایٹمی سائنسدان ہو اس دنیا میں اس کیلئے زندگی نہیں بلکہ ایک حملہ آور موت سائے کی طرح اس کا پیچھا کررہی ہے یہ سب کون کروارہا ہے اور کیوں اگر کلمہ گو اتنی عقل استعمال کریں اور رکھیں تو سمجھ سب آجائیگا ، ہمارے یہاں مذہبی جنونیوں کو آزادی دی جاتی ہے انکو لیڈر تک بنادیا جاتا ہے انکو منصب و حکومت علاقوں کا حاکم پسماندہ سہی بناکر لاد دیا جاتا ہے لیکن کہیں اسلام کی جانب دنیا مائل نہ ہوجائے اس خوف سے دنیا میں انکو پیچھے رکھنے کیلئے جسکا سہارا لیا جاتا ہے وہ اپنے ہی ہوتے ہیں چند مندرجہ زیل مثالیں پڑھیں اور اپنا سر دھنیں ۔
مسلم سائنس دانوں کا جو حشر خود مسلمانوں کے ھاتھوں ھوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ھے کہ وہ ھمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذھب نہیں ھوتا۔ان میں سے پانچ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ھے۔*01- یعقوب الکندی*
فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماھر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو ملا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ھر کوڑے پر الکندیتکلیف سے چیخ مارتا تھا اور تماشبین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔
02- ابن رشد*
*یورپ کی نشا ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہور عالم ابن رشد کو بے دین قرار دے کر اس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیااور نمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔
اس عظیم عالم نے اپنی زندگی کے آخری ایام ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیئے۔
*03- ابن سینا*
*جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراھی کا مرتکب اور مرتد قرار دیا گیا۔ مختلف مسلم حکمران اس کے تعاقب میں رھے اور وہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رھا۔اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی یعنی “القانون فی الطب” حالت روپوشی میں ھی لکھی۔
04- ذکریا الرازی*
*عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکمسنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے
جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح بار بار کتابیں سر پر مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ھو گیا اور اس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا.05- جابر ابن حیان
جسے مغربی دنیا کے لوگ جدید کیمیا کا فادر کہتے ھیں جس نے کیمیا، طب، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔
جس کی کتاب الکیمیااور کتاب السابعین صرف مغرب کی لائبریریوں میں ملتی ھے”جابر بن حیان سے حاکم وقت کا انتقامی سلوک”حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ھوئی شہرت کھٹکنے لگیچنانچہ جابر کا خراسان میں رھنا مشکل ھو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ھو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیںسنی تھی جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔
حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ھوئی۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ھوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیئے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کیسامنے پیش کیا گیا
قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا Father of Chemistry کہتی ھے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ھم مذھبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔
تو جناب یہ نیا نہیں ہورہا ہمارے قاضیوں ہماری کلمہ گو بادشاھوں کے ہاتھوں اور اگر ان میں اتنا شعور آچکا کہ انکو بخش دیں یا اپنی عیاشی و کرپشن سے انکو فرصت نہ ہو تو دشمن یہ کام مکمل کرنے خود آجاتا ہے !!
سچ یہ ہے سلام دشمن جاگے ہوئے ہیں اور مذھب اسلام دوست جو بھی دعوی کرتے ہیں وہ سب سوئے ہوئے ہیں امید ہے یہ غفلت جلد ختم ہو کہ کوء امید سحر لگائے بیٹھا ہے ۔۔۔
اللہ پاک مشرق و مغرب شمال و جنوب میں۔ سننے والے ہر کلمہ گو کی جان و مال اور عزت کی حفاظت فرمائے اور دین کی سربلندی و نصرت ہو اس کو بدنام کرنے والے سازشی اس دنیا میں اور وہاں ناکام و مقہور ہوں آمین۔
٭٭٭














