فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ امیر المومنین، امام المتّقین، اعدل الاصحاب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت یکم محرم الحرام ہے۔ ذوالحجہ23ھ کے آخری ایام میں آپ کو ابولوئو فیروز نامی شخص بدبخت زمانہ نے زخمی کیا آپ کی شہادت مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری زندگی اسلام لانے کے بعد دین متین کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی آپ کے کاغذات میں منافقین کے لئے کوئی معافی نہیں تھی بلکہ انہیں روئے زمین پر جینے کا کوئی حق نہیں تھا۔ نبی پاک ۖ کی عظمت وشان کے خلاف معمولی بات بھی برداشت نہیں کرتے تھے ہم صحابہ کرام واہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کے غلام ہیں۔ یہ سب حضور اعلیٰ امام اہل سنت، نائب اعلیٰ حضرت محدّث اعظم پاکستان اور نائب محدّث اعظم پاکستان شمس المشائخ رضی اللہ عنھم کا فیضان کرم ہے۔ انہوں نے ہماری تربیت اچھی کی، تعلیمات اعلیٰ چھوڑیں۔ آج قائد ملت اسلامیہ، جانشین شمس المشائخ، صاحبزادہ قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی زید شرفتہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدّث اعظم پاکستان نگر نگر، قریہ قریہ اس فکر کو عام کر رہے ہیں۔ یہی اصل ہے، باقی اپنے علم پر ناز کرنے والے بہت ہیں لیکن جب بات کرتے ہیں تو پھر اعتدال کی راہ سے بہت دور نکل جاتے ہیں جس کی وجہ سے انتشار وافتراق کی راہ کھلتی ہیں۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت اور شان میں جو کچھ بھی کہا جائے کم ہے امام اہل سنت رضی اللہ عنہ رقم طراز ہیں۔
وہ عمر جس کے اعدادو پہ شیدا سقر۔ اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام
فارق حق وباطل، امام الھدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیغ مسلول شدت پہ لاکھوں سلام
جانشین رسول، خلیفہ دوم امیر المئومنین عمر بن خطاب کی کفیت ”ابوحفص” اور لقب ”فاروق اعظم” ہے۔ آپ کی والدہ کا نام ”عنتمہ” ہے جو ہشام بن مغیرہ کی بیٹی ہے آپ اشراف قریش میں ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ اور آٹھویں پشت میں آپ کا خاندانی شجرہ رسول خدا ۖ کے شجر مبارکہ سے ملتا ہے آپ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال تقریباً ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کی وہ ہستی ہے کہ آپ کے آغوش اسلام میں آتے ہی تاریخ اسلام کا نیا دور شروع ہوگیا۔ اس وقت تک تقریباً چالیس یا پچاس آدمی مسلمان ہوچکے تھے اور عرب کے مشہور بہادر حضرت امیر حمزہ سّیدالشھداء رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کرلیا ہوا تھا مگر پھر بھی مسلمان اپنے فرائض منصبی علانیہ نہیں ادا کرسکتے تھے اور کعبہ میں عبادت کرنا تو بالکل ہی ممکن نہیں تھا۔ مگر آپ کے اسلام لاتے ہی ایک انقلاب آگیا اور دفعتہً یہ حالت بدل گئی کہ آپ نے برملا اپنے اسلام کا اعلان کردیا یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جا کر عبادت کی۔ چنانچہ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عمر اسلام لائے تو وہ قریش سے لڑے یہاں تک کہ انہوں نے حرم کعبہ میں جاکر عبادت کی اور ہم لوگوں نے بھی ان کے ساتھ جاکر عبادت کی۔ آپ سابقین اوّلین میں سے ہیں۔ اور خلفاء راشدین میں بڑی عظیم الشان خصوصیات کے جامع ہیں۔ بیعت الرضوان میں شامل ہوئے اور عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب صحابہ کرام علیھم الرّضوان میں آپ کا شمار ہے جن کو رسول اکرمۖ نے ایک ساتھ جنتی ہونے کی بشارت دی۔
صحابہ کرام کے کبا وعلماء میں بھی آپ بہت ہی خصوصی امتیاز کے ساتھ ممتاز ہیں۔ احادیث آپ سے مروی ہیں اور آپ کے فتاویٰ اور شرعی فیصلوں کا ایک ایسا عظیم مجموعہ ہے جو فقہ اسلامی کا نہایت ہی قیمتی ذخیرہ ہے اور بہترین عملی سرمایہ ہے آپ کے فضائل ومناقب کا کیا کہنا؟ قرآن کریم کی بہت سی آیات بینات آپ کے فضائل وکمالات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مئورخین کا بیان ہے کہ قرآن پاک کی تقریباً بیس آیتیں وہ ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو رائے دی تھی اسی کے مطابق نازل ہوئیں۔ چنانچہ آپ کا ایک مشہور لقب ”الموٰفقُ رایُہ، للوحیَ والکتاب” بھی ہے یعنی آپ کی رائے کے مطابق کبھی کبھی قرآن مجید کی وحی بھی نازل ہوا کرتی تھی اور حدیثوں میں تو آپ کے فضائل اس کثرت سے وارد ہوئے ہیں کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک دفتر بنتا ہے۔ بہرحال حضورۖ نے فرمایا: اگر میری بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب نبی ہوتے؟(مشکوٰة شریف) اس کی وضاحت یہ ہے کہ امام الانبیاء علیہ الصّلوٰة والسّلام نے فرمایا کہ میں خاتم النّبین ہوں اور میرے بعد کسی کا نبی ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے حضرت عمر نبی نہیں ہوئے آج جب انسان حضور نبی اکرم ۖ کے مواجہہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس انداز میں سلام عقیدت پیش کرتا ہے: اے وہ ذات کہ جس کے حق میں رسول اللہۖ نے فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے، تم پر سلام ہو، تو اس وقت جسم کا رونگٹا رونگٹا عظمت فاروق رضی اللہ عنہ کے تصور سے کانپ اٹھتا ہے اور سلام پڑھنے والا کیف وسرور کی ایک ایسی منزل پر پہنچ جاتا ہے جہاں یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنی پوری عظمت شان کے ساتھ بارگاہ مصطفیٰۖ میں حاضر ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے فیوض وبرکات سے ہمیں وافرحصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭











