آہ!صدر اسلامی جمہوریہ ایران!!!

0
4
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر! آیت اللہ سید ڈاکٹر ابراہیم رئیسی ساداتی اپنے آٹھ رفقا کے ہمراہ منصب شہادت پر فائز ہو گئے۔ وہ ایک متقی ، پرہیزگار ، خدا ترس اور درویش منش سید زادے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت دین و مخلوق خدا میں گزاری ۔ اس سانحہ میں انکے ہمراہ آیت اللہ سید علی آل ہاشم امام جمعہ تبریز، ڈاکٹر حسین امیروزیر خارجہ ایران، ڈاکٹر مالک رحمتی گورنر آذربائیجان اور پانچ اور افراد تھے۔ ایران کی ملت بالخصوص اور امت مسلمہ بالعموم سوگ میں ہے۔ یہ شہدا تو منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ مگر کچھ شیاطین صفت افراد زہریلے ، غلط اور جھوٹے پراپیگنڈوں میں مصروف ہو گئے ہیں ۔ ان میں سے کچھ نامعلوم اور جعلی شناختوں سے سادات و مجتہدین و علما و مومنین کو گالیاں بکنے والے ہیں اور کچھ تو متعصب ہندو بنیے ، کچھ صیہونی ایجنٹ اور نامعلوم آئی ڈیز کے حامل جاہلانہ حسد کا شکار ہیں ۔ کئی ممالک کے سوشل میڈیا ز پر اور کچھ پرسنل اکائونٹس پر بنو اُمیہ طرز کا پراپیگنڈہ جاری و ساری ہے۔ اس عظیم سانحہ کے بعد پچاس فیصد تبصرے جہالت ، عناد، تعصب ، حسادت اور فرقہ واریت نما انتقام پروری پر مشتمل ہیں تاہم آدھے اظہار حقیقت والے بنی ہیں ۔ ہندو بنیوں پر افسوس نہیں! نہ ہی صیہونیوں پر افسوس ہے ! نہ ہی انصاف سے عاری مدعیان انصاف پر انکا تو کام ہی مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔ افسوس ان مسلمانوں پر ہے جو ایسے مرحوم لوگوں پر الزام لگا رہے ہیں جو اپنا دفاع نہیں کرسکتے ۔ اس سے بڑھ کر افسوس خود کو شیعہ کہلانے والوں پر ہے ۔ جو اس سانحہ پر ہنستے اور ٹھٹھہ و مذاق کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ انگلیوں پر بھی گننے میں نہ آئینگے مگر مین اسٹیم میں فلسفی زمانہ بن کر ایسا پوز کرتے ہیں کہ وہ ارسطو ئے زمان ہیں تاکہ معصوم کمیونٹی کو دھوکہ دیں۔ اب آئیے ہم ایک ایک کر کے انکے منفی پراپیگنڈوں کا جواب دیتے ہیں۔ پراپیگنڈوں کا ذکر نہیں کرتے ہیں وہ خود بخود دم توڑ جائینگے۔ اول :تو رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دام ظلہ کے نائب کا کوئی مسئلہ درپیش ہی نہیں ہے کہ کہا جائے کہ شہید صدر ، فرزند رہبر آغا مجتبء خامنہ ای کیلئے کوئی خطرہ تھے۔ ایران کا سسٹم میں بخوبی جانتا ہوں۔ رہبر کے انتقال یا مرض شدید کی صورت میں 79 رکنی مجلس خبرگان (جیورسٹ کونسل یا فقہا کی ایکسپرٹ کونسل )نئے رہبر کا تعین کرتی ہے پہلے سے پری پلاننگ نہیں ہوتی ہے۔ کسی کو آغائے خامنہ ای کے رہبر بننے کا وہم و گمان بھی نہ تھا وہاں انتخاب آزاد رائے سے ہوتا ہے فارم 45 یا 47 سے نہیں ۔ وہاں خود شخص کبھی رہبر کیلئے والنٹیر نہیں کرتا نہ باپ اپنے بیٹے کو منصوب کرتا ہے بلکہ رہبر بننے والا خود نہیں چاہتا بلکہ اسی مجتہدین یا قریب مجتہدین اصرار کرکے بناتے ہیں ۔ رہبر کے فرزند آغائے مجتبی خامنہ ای کے رہبر بننے کی کوئی تجویز ہی نہیں ہے ۔ نہ وہاں انقلاب کے بعد موروثیت کا کوئی عمل دخل ہے ۔ یہ ہندو بنیاں کی ذہنی نا پاکی کا شاخسانہ ہے۔ ثانیا :/ یہ بھی یاد رکھیں کہ جن کے سر پر عمامہ ہوتا ہے وہ عادل ہوتے ہیں۔ مجتہد ین شہرت اور مقام سے دور رہتے ہیں۔ ثالثا:- اگر موروثیت کا کوئی عمل دخل انقلاب میں ہوتا تو فرزند امام انقلاب آغا احمد خمینی بغیر کسی منصب کے دنیا سے نہ چلے گئے ہوتے ۔ رابعا :- آغائے حسن خمینی غریب الوطنی میں نجف اشرف میں آج درس خارج نہ پڑھا رہے ہوتے بلکہ دادا کے لائے ہوئے انقلاب میں کسی پوسٹ کے امیدوار ہوتے۔ خامسا :- کچھ بائی پولر اینکر اور کالم نگار بنے ہیں انہیں بھی تنبیہ ہو اس سید زادے نے نہ کسی عالم کا قتل کیا ہے نہ کسی مومن کا۔ پراسیکیوٹر سے لیکر چیف جسٹس تک اور تولیت آستان قدس رضوی سے لیکر منصب صدارت تک انکا شفاف کردار ایک آئینہ رہا ہے۔ وہ نہ کوٹھیاں چھوڑ گئے نہ مربعے نہ جائیدادیں نہ ریئل اسٹیٹ نہ ان ہوان نے اعزا پروی کی ۔ انکی ماں آج بھی ایک غریب نشین علاقے میں ایک معمولی گھر میں رہ رہی ہیں ۔ ہاں وہ کردار ہی چھوڑ گئے ہیں۔ اور خدمات کی مثالیں ہی چھوڑ گئے ہیں۔ اگر وہاں کوئی مال بنانے کا رواج ہوتا تو امام خمینی کا آدھا ایران ملکیت ہوتا۔ وہ تو سوائے اپنے جدی پشتی گھر کے کچھ چھوڑ کر ہی نہیں گئے۔ ایک خبیث جو سب شرفا کو مقصر کہتا لکھتا ہے اس سید زادے کو بھی یہی لکھتا ہے حالانکہ کہ اس بزرگوار کی انگوٹھی ملتی ہے تو اسپر اللہ و رسول کے کے بعد جلی یا علی ع لکھا ہے!
یہ معاندین چلو پانی میں ڈوب مریں۔ اگر شرم ہو تو
ہاں اس سید زادے کا قصور یہ تھا کہ وہ اتحاد امت کا حامی تھا
وہ غزہ میں مظالم کے خلاف تھا
وہ اسلاموفوبیا کا جواب دیتا تھا
وہ یونائیڈڈ نیشن میں قرآن دکھاتا تھا ۔ وہ دنیابھر کے مظلوموں کیلئے آواز اٹھاتا تھا ۔ اسنے چیف جسٹس ہوتے ہوئے حکومتوں میں اکھاڑ پچھاڑ نہیں کی اسنے رشوت نہیں لی۔ مال نہیں بنایا ۔ اسنے صدارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھا۔ اسنے نائیجیریا کے مظلوموں کیلئے آواز اٹھائی اسنے یمن کے مظلوموں کو اکیلا نہیں چھوڑا۔اسنے کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگایا ۔وہ قبل اول کی آزادی کا علم اٹھائے تھا،وہ ولایتی تھا۔ عزادار تھا ماتمی تھا۔ اس سید کی پاک روح کو سلام اور اسکے ساتھیوں کو سلام اور جھوٹوں، حاسدوں، شرارتیوں، سبابوں ، شتاموں، چند ٹکوں کے عوض اپنا مذہب چھوڑے والوں پر لعنت۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here