کل کے مظلوم آج کے ظالم نہ بنیں! !!

0
74
پیر مکرم الحق

جس طرح پچھلے حکمرانوں نے فرعونیت دکھائی اور مخالفین کو بیجا ظلم اور ستم کا نشانہ بنایا وہ سراسر زیادتی تھی دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں کسی بھی مجرم کو حکومت وقت عدالتوں اور انتظامیہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے سزا نہیں دلواتی اور اگر کوئی مختلف جیل پہنچ جائے تو یہ نہیں کرتی کہ جیل انتظامیہ کو کہہ کر قیدی کو تنگ کرواتی ہو لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان جمہوری اور اسلامی کہلانے کے باوجود یہی کچھ کرتا آرہا ہے۔ سیاسی اختلافات کو سیاسی رہنے دیجئے خدارا اسے ذاتی نہیں بنائیں آج کے گلوبل ولیج میں یہی کچھ ہونا نہیں چاہئے کیونکہ اس میں نہ صرف ملک بدنام ہوتا ہے بلکہ پاکستانی جو بیرون ملک مکین ہیں انہیں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ کل کے ایک پیجsame pageوالی سیاسی جماعت نے تو اپنے محسنوں کو بدنام کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ تحریک انصاف کے ٹرولرز نے تو پاکستان کے اہم اداروں کے اتنی گھنائونی تصویر بنا کر پیش کی ہے کہ الامان! پہلے تو سمجھا جارہا تھا کہ یہ دو پرانے دوستوں کا جھگڑا ہے جیسے دوستوں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اس طرح جنرل باجوہ اور عمران خان کے درمیان چپقلش کی بنیاد کوئی ذاتی عناد یا شکایت ہے لیکن جب نئے آرمی چیف آگئے تو پھر تو ایسا رویہ تبدیل ہونا چاہئے تھا لیکن حیرت ہوئی سب کو جب عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا کی توپوں کا رخ نئے سربراہ کی طرف موڑ لیا۔ پہلے تو خان صاحب ملاقات کے لئے بے قرار رہے، مسلسل اصرار کے بعد بھی جب حافظ صاحب نے پورے ادارے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ دراصل عمران خان کو پکا یقین تھا کہ وہ2030 تک برسراقتدار رہیںگے۔ لیکن شو مئی قسمت سے اقتدار سے چھن گیا ،سیاسی بلوغت کا تو عمران خان میں شائبہ بھی نہیں، بچپن سے3/4بہنوں کے لاڈلے تھے کرکٹ کھیلتے تو تماشائی کے لاڈلے ،خوش شکل تھے تو برطانوی شاہی خان تک انکی شہرت پہنچ گئی۔ جوانی تو جوانی تھی لیکن موصوف کی جوانی تو کچھ زیادہ ہی جوانی تھی شاہی خاندان تک پہنچنا تو پاکستانی کے یورپی نوجوانوں کا بھی خواب ہوتا ہے پھر سونے پر سہاگہ کہ حال ہی انتقال پانے والی رانی الزبتھ نے جب خان صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو متکبر خان کے تکبر میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اوپر سے برطانیہ کے امیر ترین یہودی گولڈ اسمتھ سے جب رشتہ داری ہوگئی تو پھر عمران خان میں تھوڑی بہت نیاز مندی آگئی تھی وہ بھی رخصت ہوگئی۔ اب صرف نام کے نیازی ہیں ماسوائے نیاز مندی کے عمران خان کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے انکی پیدائش سے لیکر اب تک کی زندگی پر نظر دوڑانا ضروری ہے وہ اپنے آپ کو ہر اچھی بات اور اچھی چیز کا حقدار سمجھتے ہیں اور اپنی راہ میں آنے والے ہر انسان کو اپنا بدترین دشمن سمجھنے کے بعد اپنے کو حق بجانب بھی سمجھتے ہیں۔ کبھی اپنی ذات کے حصار سے باہر نہیں نکلتے نہ ہی نکل سکتے ہیں ایسے خود پسند انسان اپنی انا کے قیدی ہوتے انکے دل میں اپنی ذات کے علاوہ کسی سے نہ کوئی ہمدردی ہوتی ہے نہ دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ماہر نفسیات ایسی شخصیت کے حامل انسان کو سائیکوپیتھPSYCHOPATH کہتے ہیں، ان لوگوں میں بھی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک پرتشدد لیکن ہر سائیکوپیتھ پرتشدد نہیں ہوتا لیکن دونوں اقسام میں دوسروں کیلئے ہمدردی کا فقدان برابر ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر مشہور ماہر نفسیات پروفیسر جیمز فیلن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروین کیمپس علیم نفسیات اور انسانی برتائوHUMAN BEHAYIORکے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بہت سے تجربے اور تجزیے کئے جس کیلئے ابتدا انہوں نے اپنے خاندان سے کی بلکہ اپنے خاندان میں بھی ابتدا اپنی ذات سے کی اور اپنے دماغ کے کئی اسکین کئے۔ اپنے علاوہ انہوں نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار کا بھی اسکین کیا جس پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے والد اور سوتیلی ماں کا قتل کیا تھا وہ اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے علاوہ کئی قاتلوں کا دماغی اسکین کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ سائیکوپاتھ کے دماغ کے آگے والے حصہ میں سرمئی مادہGRAY MATTERکی کمی ہوتی ہے جو دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کے لئے اہم تصور کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے جب اپنے دماغ کے اسکینSCANکو جب قاتلوں کے عکس سے مقابلہ کیا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ خود بھی سائیکوپیتھ ہے لیکن انہوں نے کہا میں نے تو کوئی قتل نہیں کیا میں ایک سماج نواز سائیکوپیتھ ہوں۔ انہوں نے یہ سکین کیا کہ انکے خاندان میں ماضی میں سات ایسے لوگ تھے جن کو اپنے والدین یا عزیزوں کا قتل کیا تھا۔اس لئے انکے جینئرGEANSمیں قتل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے کہا دنیا میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو بظاہر نارمل ہیں لیکن کوئی ہمدردی کسی کیلئے نہیں رکھتے۔ اور بدقسمتی سے عمران خان بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں پھر بھی آخر میں یہی کہوں گا کوئی بھی تجربہ ہو سزا ملنی چاہئے لیکن کسی بیگناہ کو ہرگز سزا نہیں ملنی چاہئے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here